جس طرح ہر شعبہ زندگی اخلاقی قحط کا شکار ہو چکا ہے یا پھر ہوتا جارہا ہے، جیسے سرکاری ہسپتال مسیحائی سے عاری، محکمہ قانون، قانون سے ناواقف، وزیرتعلیم خود ناخواندہ اور عدالتیں مختلف وجوہات کی بنا پر فوری اور سستا انصاف دینے سے معذور ہیں اسی طرح شعبہ صحافت بھی کچھ علمی اور عقلی بحرانوں کا شکار ہے۔ اب بات صحافت کے بحرانوں سے آگے نکل چکی ہے کیونکہ بحران تو پھر بھی کچھ امید افز کیفیت کا نام ہوا کرتا ہے دیمک لگی کتاب کی طرح یہ موضوع اتنا ہی نازک ہے اس لیے اپنے پر جل جانے کے ڈر سے کچھ احتیاط مجھے بہرحال برتنی ہے۔
گزشتہ دنو ں جنوبی پنجاب کی ایک تحصیل کے پریس کلب میں نو منتخب عہدیداروں نے کچھ ٹھیکیداروں کی مالی معاونت سے ایک تقریب سجائی جسے تقریب حلف برداری کا نام دیا گیا۔ تقریب حلف بردار ی میں کچھ عصر حاضر کے ممبران اسمبلی ، ضلع کے سیاسی خانوادوں اور بطور خاص پولیس افسروں کو بطور مہمان بلایا گیا۔ پریس کلب کی اس تقریب میں کسی مستند اہل قلم یا کسی نامور صحافی کو مدعو نہیں کیا گیا اور اگر کیا بھی گیا تو انہوں نے شاید دعوت نامے پر پولیس افسران کے نام دیکھتے ہوئے شرکت سے معذرت کرلی۔ ضلعی صدر مقام سے بھی کچھ صحافی شریک ہوئے مگر تقریب کو ادھورا چھوڑ کر چل دیے۔ وہاں پر موجود حاضرین اور صحافیوں کو اس وقت حیرت ہوئی جب پریس کلب کے عہدیداروں سے حلف لینے کے لئے ایس پی سطح کے ایک پولیس افسر کو بلایا گیا ۔ ایس پی نعیم الحسن بابر نے شاید اپنی زندگی میں پہلی بار کسی پریس کلب کے عہدیداروں سے حلف لیا ہوگا ۔
غریبوں پر ظلم ہونے پر خبر روکنے کا حلف؟
مسائل ’’اجاگر‘‘ کرنے کے لئے افسران کی کوتاہی کو نہ چھاپنے کا حلف؟
مستقل درباری بنے رہنے کا حلف ؟
لوٹ کھسوٹ ، قتل و غارت اور رشوت کے خلاف اٹھنے والی آواز کو خبر نہ بنانے کا حلف؟
نہ جانے یہ فیصلہ کس کا تھا اور مہمانان خصوصی کی فہرست ترتیب دینے والا کون تھا؟ سوشل میڈیا پر صحافتی تنظیموں کا وجود بھی تو اسی ضلع سے تخلیق ہوتا ہے اور پھر وہ تنظیم پوری دنیا کی واحد’’رجسٹرڈ‘‘ تنظیم بن جاتی ہے۔ دراصل وہ تنظیم ایسے ہی صحافیوں کے گرد گھومتی ہے جو پولیس افسران کے ساتھ تصویر بنوا کر ’’صحافت کی خدمت ‘‘ کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو بھاری رقوم ادا کرکے مختلف اداروں کے نمائندگان بنتے ہیں اور اسی سیڑھی کو استعمال کرتے ہوئے پولیس افسران کے دفتر میں جا گھستے ہیں ۔ یہ ایسی تنظیموں کے مرکزی صدر بھی ہوتے ہیں جن کے ممبران کی تعداد صرف ایک ہی ہوتی ہے۔ ایسے صحافی کے کریڈٹ میں کبھی کوئی نیوز سٹوری ، فیچر یا واقعاتی خبر نہیں ہوتی بلکہ پولیس افسران کے ساتھ کچھ تصاویر اور کچھ قہقہے ان کی کل کائنات ہوا کرتے ہیں۔ پولیس افسران سے حلف لینے والے پریس کلب کے عہدیداروں کے تناظر میں مجھے عطاء الحق قاسمی کا وہ وصیت نامہ یاد آگیا جو چیف ایڈیٹر روزنامہ گڑ بڑ نے اپنے بیٹے کے نام لکھا تھا۔ باپ نے بیٹے کو وصیت کی تھی کہ روزنامہ گڑ بڑ کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ آپ بطور ایڈیٹر’’ ایجنسیوں ‘‘سے تعلقات بنا کر رکھیں ۔ باپ کو اس وقت حیرانی ہوئی جب بیٹے نے کھاد اور تیل کی ایجنسیوں کے چکر کاٹنا شروع کردیے ۔
چاہیے تو یہ تھا کہ کسی قلم کے مزدور سے حلف اور عہد کروایا جاتا جو پریس کلب کے عہدیداروں سے حلف لیتا ، نہ بکنے اور نہ جھکنے کا حلف، کمزور کے لئے طاقت ور کا مقابلہ کرتے ہوئے ڈٹ جانے کا حلف، پولیس افسران کی کرپشن کو اجاگر کرکے ایوان اقتدار تک خبر پہنچانے کا حلف ۔۔۔
اگر ایساحلف پریس کلب میں ہو رہا ہوتا تو دوسری طرف سرکاری افسران اپنا قبلہ درست کرنے بارے سنجیدگی سے غور فرما رہے ہوتے۔ قلم سے خبر لکھنے والے جب قلم کو شلوار میں ازار بند ڈالنے کے لئے استعمال کرنے لگ جائیں تو لفظ اپنی حرمت کھو دیتے ہیں ۔
فیس بک کمینٹ