41 ایکڑ پر محیط لوکل گورنمنٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کی عمارت قدیم طرز رہائش کا نمونہ تھی ۔ جوکہ 1952 میں village aid کے نام سے تعمیر ہوئی تھی ۔۔ aidبنیادی طور پر ایگرکلچرل انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کامخفف تھا ۔۔ جس کا بنیادی مقصد گورنمنٹ کی طرف سے دیہات کی سطح پر زراعت اور صنعتوں کے فروغ کے ذریعے ترقی تھا ۔۔۔ اس مقصد کے حصول کے لئے یہاں دیہی علاقوں میں موجود ویلج ایڈ ورکرز اور دیگر سرکاری اہلکاران کے لئے تربیت کا فریضہ انجام دیا جاتا تھا اور اس تربیت کا دورانیہ چھ ماہ سے بھی زیادہ عرصہ پر محیط ہوتا تھا ۔۔۔ ایوب خاں کے مارشل لا کے بعد بنیادی جمہوریتوں کا نظام آیا تو اس ادارے کی ذمہ داریاں بھی تبدیل ہوگئیں۔ 1961 ء میں یونین کونسلز کا اور اربن کونسلز کا قیام عمل میں آیا۔ اور یوں پاکستان میں باقاعدہ ایک بلدیاتی نظام کی بنیاد پڑی۔۔ ان بلدیاتی اداروں کے اصل مقاصد کیا تھے لیکن ان سے حکومتوں نے اپنے کیا مقاصد حاصل کئے یہ ایک الگ داستان ہے۔ البتہ میں نے جس وقت یہ محکمہ جوائن کیا اس وقت بلدیاتی ادارے جنرل ضیاالحق کے بنائے ہوے 1979 ء کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت کام کر رہے تھے۔ اور ہمیں اس ایکٹ پر عبور حاصل کرکے بلدیاتی اداروں کو ان کے مطابق چلانے کے لئے یہاں بھیجا گیا تھا۔ اس وقت اس تربیت گاہ کے پرنسپل رانا غلام محمد تھے جوکہ طویل مدت سے یہاں تعینات تھے ۔ ان کی شہرت ایک سخت گیر ایڈمنسٹریٹر کے طور پر تھی ان کے تلے کام کرنے والوں کی اکثریت فیلڈ کے ان افسران کی تھی جو یا تو انتظامی ذ مہ داریوں سے گھبرا کر یہاں آئے تھے یا پھر فیلڈ میں ہونے والی بے ضابطگیوں اور کرپشن سے بچنے کے لئے۔ بہر حال کچھ بھی تھا۔۔ یہ افسران قابلیت کی سطح پر بھی ایوریج ہی تھے۔ جس کا اندازہ ہمیں ان کے دو تین دن کے لیکچرز کے بعد ہی ہو گیا تھا ۔ان کی بنیادی تعلیم بی ایس سی یا ایم ایس سی ایگریکلچر تھی
اور یہ محکمے میں زیادہ تر بطور ڈیلویپمنٹ اسٹنٹ اپنے فرائض انجام دیتے رہے تھے ۔ اور ان میں سے اکثر بغیر کسی امتحان کے محکمے میں آگئے تھے جبکہ ہم نئے آنے والے آفیسرز ایک تو پنجاب پبلک کمیشن کا امتحان اورانٹرویو کا مرحلہ طے کر کے آئے تھے اور دوسرے ہماری کوالیفیکشن ایم اے اکنامکس ایم پی اے لا گریجویشن یا ایم اے سوشل ورک تھی۔۔ اور تقریبا سب کے سب تازہ تازہ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل تھے۔ لہٰذ ہ ہمارے لئے یہاں پڑھائی کی صورت تو نہایت مایوس کن تھی۔ پرانی طرز کے بڑے بڑے کلا س رومز تھے جن میں لوہے کی کرسیاں دھری تھیں۔ سامنے ایک تختہ سیاہ تھا۔ جس پر ہمارے اساتذ ہ کرام ہمیں پرائمری کے طلبا کی طرح پڑھاتے تھے۔ ہوسٹل کی صورت حال اس سے بھی بری تھی ۔ لوہے کی چارپائیاں جن پر ہم نے اپنے گھروں سے لائے ہوئے بستر بچھائے ہوئے تھے ۔کامن باتھ رومز اور لیٹرینز جن کے اوپر چھت بھی نہیں تھی۔کئی شرارتی دوست بعض اوقات ان نازک لمحات میں دیگر احباب کو دیوار کے اوپر سے جھانک کر تنگ بھی کرتے تھے۔ میس کی صوررت حال دگر گوں اس لئے تھی کہ اس کا انتظام بھی ہم شرکائے تربیت نے اپنی جیب سے کرنا تھا۔ اور کئی دوستوں کی تو ابھی تنخواہ بھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ ۔
لہٰذہ دال ساگ پر ہی گزارا تھا۔ ۔۔اس صورت حال میں دوستوں کی شرارتیں ہی ایک سہارا تھیں جن کی وجہ سے دل لگا ہوا تھا۔ لیکن ہماری ان شرارتوں کا جب ادارے کے پرنسپل رانا غلام محمد کو پتہ چلا تو انہوں نے تمام شرکاء کو جمع کرکے جو تقریر فرمائی وہ سب کو ڈرادینے کے لئے کافی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ ٹریننگ کے بعد سب کا امتحان ہوگا اور جو اس میں فیل ہوگا اس کی ملازمت سے چھٹی ہوجائے گی اور اسے گھر بھیج دیا جائےگا۔۔ یہ سن کر سب کی ہوائیاں اڑنے لگیں۔۔ اور پھر اس دن کے بعد شرارتیں کم ہوگئیں اور سب اپنے اپنے کمروں میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ پڑھتے دکھائی دینے لگے۔لالہ موسیٰ میں چند دن خاموشی سے گزارنے کے بعد میری ادبی رگ پھڑکنے لگی اور میرےدل میں یہاں کے ادیبوں اور شاعروں سے ملنے کی خواہش نے سر ابھارا ۔۔ مجھے ان دنوں صرف اتنا علم تھا کہ یہاں کاوش بٹ صاحب بھی رہائش پذ یر ہیں۔۔جن سے قبل ازیں میری ملاقات برلاس صاحب کے ایک مشاعرے میں ہوچکی تھی۔ لیکن مجھے ان کی رہائش گا ہ کا پتہ نہیں تھا اور نہ ہی ان دنوں موبائل فون تھے۔ البتہ یہ ضرورعلم تھا کہ وہ کسی اخبار کے نمائیندے ہیں لہٰذہ کسی اخبار فروش سے ان کے ٹھکانے کے بارے میں خبر ہوسکتی تھی ۔ ایک روز شام کے وقت میں شہر کی جانب نکلا اور پوچھتے پوچھتے ایک نیوز ایجنسی پر چلا گیا۔ وہ کاوش بٹ سے آگاہ ضرور تھے لیکن انہیں بھی ان کے گھر کا علم نہیں تھا ۔ البتہ انہوں نے کہا کاوش بٹ صاحب عموما بس سٹینڈ پر قائم دربار ہوٹل میں باقاعدگی سے بیٹھتے ہیں۔ اور پھر یہی ہوا اگلی شام دربار ہوٹل پر ان سے میری ملاقات ہوگئی جہاں وہ لالہ موسیٰ کے نوجوان صحافیوں اسداللہ انصاری اور افضال طاہر کے ساتھ موجود تھے ۔ فربہ جسم کے حامل سیاہی مائل رنگ چہرے پر مسکراہٹ سجائے کاوش بٹ صاحب نے میرا پرتپاک استقبال کیا۔۔ اوران دونوں صحافیوں سے میرا بھرپور تعارف کروایا۔ وہ مرتضیٰ برلاس صاحب کے مداحین میں سے تھے۔ اور برلاس صاحب کے ذریعے میری یہ غزل” کسی عشق ورزق کے جال میں نہیں آئے گا“ ان تک پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔ ۔ بٹ صاحب نے میرے قیام کا عرصہ پوچھا اور پھر خود ہی میری ہر شام کا پروگرام طے کرلیا۔ جس میں علاقے کے مختلف ادیبوں شاعروں سے ملاقاتیں بھی شامل تھیں۔ کاوش بٹ سے خوشگوار ملاقات نے مجھے تروتازہ کر دیا تھا اور مجھے لگ رہا تھا کہ اب لالہ موسیٰ میں میرے دن خوشگوار گزریں گے۔
فیس بک کمینٹ