کاوش بٹ اپنی طرز کے ایک ایسے شخص تھے جو لالہ موسیٰ جیسے چھوٹے سے قصبے میں رہائش پذ یر ہوتے ہوئے بھی مرکزی ادبی دھارے سے جڑے ہوئے تھے۔ شاید اس میں زیادہ کمال ان کی شاعری کی نسبت ان کے شخصی رویوں کا تھا۔۔ وہ جن لوگوں سے محبت کرتے تھے ان سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے ۔۔ احمد ندیم قاسمی کو اپنا مرشد مانتے تھے ۔ مرتضیٰ برلاس سے بھی ان کی عقیدت بے پناہ تھی ۔۔ برلاس صاحب کے بارے میں انہوں نے مجھے بتایا کہ جن دنوں برلاس صاحب کی اس علاقے میں پوسٹنگ تھی ان کے پاس یہاں کی ایک بڑی سیاسی شخصیت کا ریونیو کے حوالے سے ایک کیس تھا۔ اور اگر برلاس صاحب ان کے حق میں فیصلہ کر دیتے تو اس زمانے میں اس شخصیت کو کروڑوں کا فائدہ ہو سکتا تھا۔ لہٰذہ وہ اپنے حق میں فیصلہ کروانے کے لئے ہر حربہ آزماچکے تھے۔ لیکن برلاس صاحب اپنے اصولوں سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں تھے ۔ انہیں کسی نے کہا برلاس صاحب شاعروں کا بہت کہا مانتے ہیں لہٰذہ آپ کاوش بٹ سے رابطہ قائم کریں چنانچہ انہوں نے مجھ سے رابطہ قائم کیا اور اس کام کے لئے ایک بڑی رقم کی آفر کی۔ میں نے پہلے تو انہیں انکار کیا اور بتایا کہ برلاس صاحب اس طرز کے افسروں میں نہیں ہیں۔ لیکن وہ شخصیت بضد رہی۔ آخر ایک شام میں ہمت کرکے برلاس صاحب سے ملنے ان کی سرکاری رہائش گاہ پر چلا گیا۔ تھوڑی دیر ادبی معاملات پر گفتگو کی ۔۔ چائے کے دوران ان کا خوشگوار موڈ دیکھ کر میں نے انہیں اس شخصیت کے کیس کی سفارش کی اور رقم کی آفر کا بتایا۔ اتنا سننا تھا برلاس صاحب کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور وہ کہنے لگے کاوش بٹ اگر تم شاعر اور میرے دوست نہ ہوتے تو میں ابھی تمھیں دھکے دے کر گھر سے باہر نکال دیتا۔ آخر تم نے ان شخصیت سے یہ بات سننے کی ہمت اور پھر سفارش کرنے کی حامی کیسے بھر لی۔ برلاس صاحب کا موڈ دیکھ کر میں نے فورا پینترا بدلا اور کہا حضور میں ایسا کر سکتا ہوں میں نے ان سے نہ کوئی وعدہ کیا اور کوئی حامی بھری۔ بلکہ الٹا اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔۔۔ میں تو محض آپ کو تنگ کرنے کے لئے کہہ رہا تھا اور پھر یوں کہیں جاکر برلاس صاحب کا موڈ ٹھیک ہوا۔۔ ۔
کاوش بٹ کی اپنے شہر میں ہر دلعزیزی کا اندازہ مجھے اگلے روز ان کے ساتھ لالہ موسیٰ شہر میں گھومتے ہوئےہوا۔ جہاں جہاں ہم رکے لوگ ان سے اپنی محبتوں کا ثبوت ان سے والہانہ انداز میں ملتے ہوئے کر رہے تھے۔ عملا بھی چائے اور کھانے کی آفر کے ساتھ ساتھ اس پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے کہ بٹ صاحب نے ہماری طرف آنے کی مہربانی فرمائی۔۔ یہ سب کچھ مجھے حیران کر دینے کے لئے کافی تھا۔ اگر کسی کھوکے پر سے انہوں نے پان اور سگریٹ لئےتو دکاندار نےان کے اصرار کے باوجود پیسے لینے سے انکار کر دیا۔ جب میں نے بٹ صاحب سے اس کی وجہ پوچھی تو وہ ہنستے ہوئے کہنے لگے کوئی خاص وجہ نہیں۔۔۔ ہاں البتہ میری ایک عادت ہے میں لوگوں سے مسکرا کر ملتا ہوں ۔ کسی کا مسئلہ حل کرنے کی ہمت رکھتا ہوں تو نہایت مخلصانہ انداز میں اسے حل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ شاید یہ لوگوں سے میری محبت ہے جس کا جواب مجھے محبت سے ملتا ہے۔ ان کی مہمان نوازی کا ایک دلچسپ واقعہ جو انہوں نے مجھے سنایا اس نے بھی مجھے بہت حیران کیا۔ بقول ان کے ایک مرتبہ راولپنڈی میں مشاعرے کے بعد لاہور کے شعرا جن میں احمد ندیم قاسمی قتیل شفائی شہزاد احمد خالد احمد اور دیگر احباب شامل تھے بذ ریعہ ٹرین لاہور جارہے تھے۔ ٹرین نے صبح سویرے لالہ موسیٰ جنکشن سےگزرنا تھا۔ چنانچہ میں نے تمام دوستوں کو اسٹیشن پر ناشتے کی دعوت دے تھی ۔ ان کا خیال تھا کہ میں شاید انہیں ٹرین میں ناشتہ پہنچادوں گا۔ لیکن جب ٹرین لالہ موسی ٰجنکشن پر پہنچی تو میں سب احباب کو سٹیشن کے ڈائننگ ہال میں لے گیا جہاں انہوں نے آرام سے ناشتہ کیا ۔اسٹیشن ماسٹر میرے ہمراہ میزبان تھے ۔ اور اس روز شعرا کی پذیرائی کے لئے ٹرین 5 منٹ کی بجائے تقریبا آدھ گھنٹے سے زیارہ اسٹیشن پر رکی رہی۔۔
فیس بک کمینٹ