اب ہم نے جانا کہ ہم نیوزی لینڈ کو کتنا کم جانتے تھے۔ نقشے پر دیکھا تو وہاں جہاں لگتا تھا کہ اس کے بعد دنیا ختم ہو جاتی ہے، دو جزیرے سے نظر آئے، جزیرے بھی کیا، انہیں ٹاپو کہئے۔ کرۂ ارض کے گلوب پر دیکھا تو ساری نو عمری یہی سوچتے گزری کہ نیوزی لینڈ دنیا کے پیندے میں واقع ہے جہاں ہر چیز الٹی ہوتی ہو گی،ایسی زمین پر لوگ کیونکر چلتے پھرتے ہوں گے۔ عرش نیچے ہو گا اور فرش اوپر۔ پھر جب نگاہ کشادہ ہوئی اور دنیا وسیع ہونے لگی تو نیوزی لینڈ والوں کی ایک ہی ادا سے واقف ہوئے اور وہ تھا ان کا جنگی رقص، جسے آج ہم ہکّا ڈانس کے نام سے اپنے ٹیلی وژن اسکرین پر بار بار دیکھتے ہیں۔ دیکھنے میں اچھے بھلے سیدھے سادے لوگ جب کسی مقابلے یا فٹ بال یا رگبی کے میدان میں اترتے ہیں تو پہلے ایک عجیب وحشیانہ رقص کرتے ہیں، اس وقت ان کے چہرے پر دیوانگی سی ہوتی ہے، کبھی ہوا میں گھونسے چلاتے ہیں، کبھی چہرے پر دہشت طاری کر کے بڑی سی زبان نکال کر دیکھنے والوں کو دہلاتے ہیں اور کبھی زمین پر پیر پٹخ پٹخ کر زور زور سے دھول اڑاتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر ہمیشہ ایک ہی خیال آیا کہ نیوزی لینڈ والے درندے ہیں مگر کون جانتا تھا، کس کو گمان تھا، کس نے سوچا تھا اور کس کو احساس تھا کہ اس وحشت زدہ بدن کے اندر نہایت ملائم دل دھڑکتا ہے۔ ہم نے کب جانا تھا کہ جزیرے کی ویرانی کے دنوں میں وہاں بسنے والوں کی یہ ادا اختیار کرنے والوں کے دل کتنے کشادہ اور ذہن کتنے روشن ہیں۔ ہم تو یہی جانتے تھے کہ دنیا کے اکثر علاقے شروع شروع میں ویران اور اجاڑ تھے جن میں زمانہ قدیم سے کچھ صدیوں پرانے ننگ دھڑنگ لوگ آباد تھے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ دنیا کی آبادی بڑھی اور انسان کے قدم ان ویران زمینوں تک جا پہنچے۔ یہی نہیں، ان نو واردوں نے ان ہی زمینوں کو صدیوں سے آباد کرنے والے قدیم باشندوں کو دھکیل کر علاقے صاف کئے اور ان پرانے باسیوں کو پیروں تلے روندا، خوار کیا، انہیں بے گھر کیا اور اجاڑ ڈالا مگر یہ نیوزی لینڈ کے خالی پڑے ہوئے علاقوں کے وہی ننگ دھڑنگ اور وحشت زدہ لوگوں کو بے خانماں کرنے کی بجائے ان کے طور طریقے اپنا لئے۔ ان کے باپ دادا کے زمانے سے چلے آنے والے رقص کو اپنی قومی علامت قرار دے کر اس کو اپنی علامت بنا لیا۔ آج دنیا کے کسی بھی علاقے میں رگبی کا مقابلہ ہو اور اس میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کھیل رہی ہو تو پہلے سارا کھیل روک کر اس ٹیم کو ہکّا ڈانس کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ ہمیں کتنی ہی عجیب لگے ان کی یہ ادا، مگر انہیں اسی پر ناز ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ان کی اس ادا پر اب تو ہمیں بھی ناز ہونے لگا ہے۔ یہ سوچ کر ہم خود حیران ہوتے ہیں کہ جنگ کے جوش اور جنون کا مظاہرہ کرنے والے یہ لوگ اندر سے کیسے ہمدرد، کتنے درد مند، کس قدر انسان دوست اور کتنے روادار ہیں۔ ان کے ملک میں ایک درندہ صفت انسان نے نماز جمعہ کے دوران ایک مسجد میں گھس کر اپنے خودکار ہتھیاروں سے نمازیوں کا بے دریغ قتل عام کیا، لاشوں کے انبار لگائے اور پوری پوری صفوں کو بری طرح گھائل کر دیا پھر جو ہوا وہ عجب ہوا۔ نیوزی لینڈ کی پوری قوم مسلمانوں کے حق میں کھڑی ہو گئی۔ یوں شاید نہ ہوتی لیکن اپنی خاتون وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کی انسان دوستی اور درد مندی دیکھ کر ان قوموں کی یاد تازہ کردی جو اپنے قائد کی تقلید کو اپنا ایمان بنا لیتی تھیں۔ وزیراعظم نے لمحہ بھر میں بیوہ ہونے والی مسلمان خواتین کو سینے سے کیا لگایا، سارے ہی نیوزی لینڈ والوں نے ایک ایک مسلمان کو اپنے بازوؤں میں لے لیا۔ زخموں پر مرہم رکھنے کے ایسے منظر بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ اس کے بعد تو یہ ہوا کہ جہاں مسلمان نماز پڑھنے کھڑے ہوئے، مقامی باشندے ان کے آگے حفاظتی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ جہاں کہیں لوگوں کو نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا، ہاتھ باندھ کر اور سر جھکا کر ادب سے کھڑے ہو گئے۔ خاتون وزیراعظم نے تو کمال کیا کہ سیاہ لباس پہن لیا اور سر پر سیاہ دوپٹہ اوڑھ لیا، اس کے نتیجے میں جو منظر دیکھنے میں آرہا ہے وہ کسی نے کب دیکھا ہو گا۔ منظر یہ ہے نیوزی لینڈ کی خواتین نے اپنے سروں پر دوپٹے لے لئے ہیں، دکانوں میں دوپٹے ختم ہو گئے اور فیکٹریاں رات دن دوپٹے بنا رہی ہیں۔ مرد بھی کسی سے پیچھے نہیں اور انہوں نے مسلمانوں کی دیکھا دیکھی کرتے شلوار زیب تن کر لئے ہیں۔ یہی نہیں، ایک روز دیکھا کہ یہ مقامی باشند ے نمازیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے اور ان کو اپنی چوکی داری کا یقین دلانے کے لئے ہکّا ڈانس کررہے تھے اور وہ بھی کرتا شلوار پہن کر۔
بس اب ایک خطرہ ہے۔ وہ یہ کہ جو لوگ ترکِ وطن کی ٹھانے بیٹھے ہیں وہ یہ سوچ کر کہ نیوزی لینڈ والے نہایت رحم دل او رفراخ دل ہیں، باقی دنیا کو چھوڑ کر نیوزی لینڈ کی طرف نہ چل پڑیں۔ کہیں یہ خیال عام نہ ہو جائے کہ وہاں زندگی اچھی گزرے گی، خوب نمازیں بھی ہوں گی اور مسجد کے باہر مقامی گورے پہرے پر کھڑے ہوں گے۔ ادھر شام میں اسلامی ریاست کے نام پر جنگ کرنے والوں کو شکست ہوئی ہے، کہیں یہ نہ ہو کہ ہارے ہوئے دہشت گرد اپنا اگلا پڑاؤ ڈالنے کی خاطر نیوزی لینڈ کی طرف چل پڑیں۔
اس پر یاد آیا۔ ایک صاحب مسلسل تین دن سفر کر کے نیوزی لینڈ پہنچے۔ انہیں وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن سے ملاقات کی تمنّا تھی۔ ان کا اشتیاق دیکھ کر وزیراعظم بھی ان سے ملنے پر آمادہ ہو گئیں۔ ہم نے ٹیلی وژن پر ان کی ملاقات کا احوال دیکھا۔ وزیراعظم سے دعا سلام کے بعد فرمایا کہ میں اتنی دور سے چل کر آپ سے ایک بات کہنے آیا ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ فرمائیے۔ بولے:مسلمان ہو جائیے۔ وہ بے چاری مسکرا کر رہ گئیں۔
ایک ہم ہیں کہ چاہتے ہیں کچھ ایسا ہو کہ ہم جیسنڈا آرڈرن ہو جائیں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ