وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ کسی عاقبت نااندیش نے ریڈیو پاکستان پر کلہاڑی چلا دی۔ سنا ہے کہ کچھ علاقائی نشرگاہیں بند کردی گئی ہیں اور اسلام آباد میں پورے ملک کے لئے ریڈیو کا جو تربیتی ادارہ ہے اُس پر بھی بھاری بھرکم قفل لگا دیا گیا ہے۔ میرا ماتھا اُسی وقت ٹھنکا تھا جب اُس وقت کے وزیرِ اطلاعات و نشریات نے کہا تھا کہ اسلام آباد میں ریڈیو اسٹیشن کے نام پر اتنی بڑی عمارت فضول ہے اور یہ کہ ریڈیو اسٹیشن تو ایک کمرے میں بھی قائم ہو سکتا ہے۔ جس پر میں نے وزیر موصوف کو بتایا کہ آپ ایک کمرے کی بات کرتے ہیں، ریڈیو اسٹیشن غسل خانے میں بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔ اِس میں ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ جب وزیر موصوف تقریر کریں گے تو یوں لگے گا جیسے آسمان سے کوئی آواز اُتر رہی ہے۔ اُن صاحب کے اس رویّے پر پورے ملک سے آوازیں بلند ہوئیں ورنہ وزیر صاحب ریڈیو پاکستان کی اسلام آباد کی عمارت کسی کو پٹّے پر دینے چلے تھے۔
اس رویے سے پتہ چلتا ہے کہ مسندِ اقتدار تک پہنچنے کے لئے فہم و فراست کی اتنی ضرورت نہیں جتنی عام لوگ سمجھتے ہیں۔ ہم ہر روز ٹیلی وژن کی اسکرین پر بھانت بھانت کے سرکاری اہل کاروں کو دیکھتے ہیں، اُن کی گفتگو سننا تو رہی دور کی بات، اُن کے چہرے بشرے پر ایک نگاہ ڈالتے ہی احساس ہوتا ہے کہ کیا ملک میں پڑھے لکھے، سمجھ دار، ذہین، عقل مند، ہونہار اور دانش مند لوگوں کا اتنا قحط تھا؟
ریڈیو، میں نے پہلے بھی کہا تھا، ایک قومی علامت ہوا کرتا ہے۔ ملک کی پہچان ہوتا ہے، اس کی حفاظت کی جاتی ہے، اس کی سلامتی کے بندوبست ہوتے ہیں ورنہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن ملکوں میں حکومت کے خلاف بغاوت ہوتی ہے، سب سے پہلے اس کی نشرگاہ پر قبضہ کیا جاتا ہے یا سب سے بڑھ کر اس کی نشرگاہ پر پہرے لگائے جاتے ہیں۔ اُس کے علاوہ معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ دنیا کی فضا میں تیرتی ہوئی لاکھوں ریڈیائی لہروں میں ہر ملک، ہر قوم اور ہر حکومت اپنا ٹھکانا بنا کر اس پر پہرا لگائے رکھتی ہے۔ میں نے اپنے بی بی سی کے زمانے میں دیکھا کہ ریڈیو کی عالمی نظامت کے ادارے سے آئے دن یہ بحث چلا کرتی تھی کہ کسی دوسری نشرگاہ کو ایسی فریکوئنسی الاٹ کردی گئی ہے جو ہماری نشریات میں خلل ڈال رہی ہے۔ حکومتیں اِس کوشش میں لگی رہتی ہیں کہ اُن کی نشریات میں کوئی دوسرا ریڈیو اسٹیشن مخل نہ ہو۔
مجھے ہمیشہ یاد رہے گا، اپریل سنہ بیاسی میں برطانیہ کی ملکیت جزیرہ فاک لینڈ پر ارجنٹائن کی فوجوں نے حملہ کیا تھا اور سب سے پہلے جزیرے کے چھوٹے سے ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کیا تھا۔ مارگریٹ تھیچر کی حکومت نے اِسی علاقے میں کہیں بی بی سی کے ایک چھوٹے سے ریڈیو اسٹیشن کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اس پر ارجنٹینا کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا۔ بی بی سی نے کڑوا گھونٹ نگل کر اپنی و ہ نشر گاہ حکومت کو سونپ دی۔ کچھ عرصے بعد جب جزیرے پر ارجنٹائن کا قبضہ ختم ہوگیا تو حکومت نے وہ ریڈیو اسٹیشن بی بی سی کے حوالے کرنا چاہا مگر بی بی سی نے اسے لینے سے انکار کردیا کیونکہ پروپیگنڈا کرکے اب وہ نشرگاہ ’ناپاک ‘ ہو چکی تھی۔
ان باریکیوں اور نزاکتوں کو سمجھنے والے حکمراں ہمیں نصیب ہوتے تو دنیا ہمارے نصیب پر رشک کرتی۔ حیرت ہوتی ہے اُن لوگوں پر جو سامنے کی بنیادی حقیقتوں سے بھی واقف نہیں۔ کاش یہ کوئی اور کام کر رہے ہوتے۔ تفصیل مجھے معلوم نہیں، مگر سنا ہے کہ ایبٹ آباد، سرگودھا اور راولپنڈی کے ریڈیو اسٹیشن کے چراغ گل کردئیے گئے ہیں۔ غالباً نجی کمپنیوں نے کروڑوں کی بولی لگا کر ان شہروں میں ایف ایم اسٹیشن قائم کردئیے ہوں گے یا لائسنس لے لیا ہوگا۔ اب وہ اپنے لگائے ہوئے کروڑوں واپس لیں گے۔ اِس طرح پاکستان کی جو تصویر ابھرے گی وہ کتنی بدہیئت ہوگی، مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔ مجھے رہ رہ کر یہ خیال ہوتا ہے کہ لوگ مالی بدحالی کی جو بات کرتے ہیں وہ شاید اتنی غلط بھی نہیں، زوال نہیں تو اس کے آثار ضرور نمودار ہونے لگے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ ایسے میں کفایت شعاری ہی کئی مسائل کا حل ہے لیکن بعض اخراجات ایسے ہوتے ہیں جن میں کٹوتی سے بچت نہیں ہوتی بلکہ معیشت کی بنیادوں میں خرابیاں جڑ پکڑنے لگتی ہیں۔ کہنے والے یہی کہیں گے کہ ریڈیو جاری رکھنے پر بھاری لاگت آتی ہے کیونکہ اس پر جو خرچ ہوتا ہے آگے چل کر قومی خزانے میں واپس نہیں آتا۔ اس پر یاد آیا کہ ایک زمانے میں یہ بھولے لوگ تعلیم کے بارے میں بھی یہی کہا کرتے تھے کہ تعلیم پر لگایا جانے والا سرمایہ قومی خزانے میں کوئی اضافہ نہیں کرتا۔ وہ لوگ زراعت کی مثال دیتے تھے کہ اس پر سرمایہ لگایا جائے تو تیار فصل کی شکل میں کچھ تو ملتا ہے۔ خالص دہقانی دلیل ہے۔ یہ اُن لوگوں کی بے تُکی اور اوٹ پٹانگ تاویلیں ہیں جن کی سمجھ بوجھ پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور وہ بھی اتنے دبیز کہ فہم و فراست کی ایک شعاع کا بھی اِس راہ سے گزر نہیں۔ ریڈیو کے بارے میں آخر میں یہی کہوں گا کہ ہر علاقے میں قائم نشرگاہ صرف وقت ضائع نہیں کرتی۔ وہ اپنی ثقافت، تہذیب، تمدن، روایات اور اقدار کی ترویج کا بھاری فرض انجام دیتی ہے۔ ایک چھوٹے سے ریڈیو اسٹیشن سے ذرا سوچئے علاقے کے دانشور، ادیب، شاعر، مدبر، معلم، فنکار، گلوکار، سازندے اور زمانہ دیکھے ہوئے بزرگ کتنا فیض اٹھاتے ہیں، کوئی بھاری فیس کما کر نہیں بلکہ علاقے کے گوشے گوشے میں اپنی آواز پہنچا کر۔ تو مختصر یہ کہ ایبٹ آباد، سرگودھا اور پنڈی تھری کی نشرگاہیں بند ہوئیں اور اسلام آباد میں ریڈیو کی تربیتی اکیڈمی بھی لپیٹ دی گئی۔ اب اگر کوئی پوچھے کہ پھر کیا ہوا تو ایک قدیم کہانی کا انجام دہراؤں گا:
جانِ عالم نے پنچرہ اٹھالیا اور طوطے نے سر جھکا دیا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ