عدیل میاں
یہ ہجوم کیسا ہے؟
سر
ہجوم تو ایسے ہی ہوتے ہیں.
عام طور پر یہاں اتنے لوگ اکٹھے نہیں ہوتے.
یہ لوگوں کے بیچ بڑھی داڑھی، طویل قامت، لمبے بال اور یہ بدحال کون ہے؟
یہ کوئی پاگل سا لگتا ہے.
ہفتے دس دن بعد اس علاقے میں آ نکلتا ہے. سارا دن سڑکوں پر پیدل چلتا رہتا ہے رات تو سب کو پناہ دے دیتی ہے.
آپ لوگوں کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ پاگل ہے؟
ایک ہی بات کہتا رہتا ہے کہ
"کُتی چوراں نال رل گئی ہے”
جو ایک ہی بات بار بار کہے اسے پاگل کہتے ہیں کیا؟
مدثر نے بولا
ہمارے بزرگ تو یہی کہتے ہیں
مگر اسلام آباد والے تو اسے وزیر اعظم کہتے ہیں.
ہماری یہ بات سنتے ہی کچھ نوجوان چونکے اور ہماری طرف بڑھے.
کیا کہا… تو نے….
ہمارے وزیراعظم کا نام لیتا ہے.
اس سے پہلے کہ مجمع ہماری خبر لیتا اور ہم خبر بن جاتے عدیل کے بڑے بھائی نے کہا سر یہ سارے پاگل ہو چکے ہیں آپ ادھر ہمارے مکان پر چلیں.
اس کے سمجھانے اور ہماری ٹانگوں نے کام دکھایا اور ہانپتے ان کے مکان پر پہنچے.
وہاں بیٹھے بزرگوں سے پوچھا کہ "کُتی چوراں نال رل گئی ہے” کا پس منظر اور شرح کیا ہے؟
تو ساون خان بولا
گزرے دنوں کی بات ہے کہ ایک کسان کے گنے کے کھیتوں کو گیڈر خراب کر جاتے تھے. وہ بیچارہ بہت تنگ آیا ہوا تھا ایک ریٹائرڈ پولیس والے نے کہا کہ میری کُتیا لے جائیں اس کے ڈر سے گیڈر تیرے کھیتوں کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے. وہ خوشی خوشی کُتیا کو گھر لے آیا کھانا کھلایا دودھ پلایا.
رات ہوتے ہی گیڈر کھیتوں میں شور مچانے لگے تو کُتیا نے تیزی سے چھلانگ لگائی اور کھیتوں میں گھس گئی.
کچھ دیر بعد گیڈر خاموش ہو گئے. کسان خوش ہوا کُتیا اور پولیس والے کا ممنون ہوا.
اگلے دن پھر رات ہوتے ہی گیڈروں کا شور سنائی دیا پھر کُتیا نے دیوار سے چھلانگ لگائی اور کھیتوں میں گھس گئی گیڈروں کا شور ختم ہوا کسان خوش ہوا کتیا کو دودھ پلایا بلکہ ساتھ بھی سلایا.
تیسری رات پھر گیڈروں نے شور مچانا شروع کر دیا تو کُتیا حسب معمول تیزی سے کھیتوں کی طرف بھاگی تو کسان حیران ہوا کہ گیڈر کہاں سے آ گئے میرا تو خیال تھا کہ سپاہی کی کُتیا کی وجہ میرے کھیت اب محفوظ ہو گئے ہیں لیکن گیڈر تو اب بھی آ رہے ہیں تو وہ کُتیا کے پیچھے پیچھے کھیتوں میں گُھسا….
کیا دیکھتا ہے کہ کُتیا ایک گیڈر کے حقوقِ زوجیت ادا کر رہی ہے اور باقی گیڈر لائن بنائے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں.
تو بیٹا.
اسی دن سے کہتے ہیں کہ کُتی چوراں نال رل گئی ہے.
تو خان صاحب
یہ پاگل ایسا کیوں کہہ رہا ہے.
کہنے لگے خدا معلوم.
مشورہ ہوا کچھ نوجوان اسے ڈھونڈ کر لائیں کافی دیر بعد وہ پاگل، نوجوانوں کے ساتھ مکان پر لایا گیا
ڈاکٹر گل شیر سے مشورہ کیا اس طرح کے لوگوں کے بارے میں آپ کا علم کیا کہتا ہے؟
ڈاکٹر صاحب کہنے لگے اسے نئے کپڑے پہنائیں، شیو کرائیں، نہلائیں، خوشبوئیں لگائیں، تصویریں بنائیں لذیذ کھانے کھلائیں عزت و احترام سے پیش آئیں ہو سکتا ہے کہ کچھ بول پڑے.
چنانچہ ایسے ہی کیا گیا پھر رات کی ٹھنڈک اور چاند کے نور نے اس کے بگڑے حواس میں رنگ بھرا.
تو وہ بولا
میں نے سُکھ سویرے کے لئے دھرنے دئیے بیوی بچے ساتھ کئے جلسے بھرے نعرے لگائے.
تبدیلی کے عشق نے ملازمت چھڑا دی. لیکن جب مہنگائی کی مار پڑی،
بیٹی فیس خاطر گھر بیٹھ گئی بیوی خون تھوکتے مر گئی ہمسایوں اور دوستوں کے طعنوں نے ضرب لگائی تو ایک دن دادا بولے
بیٹا
"کُتی چوراں نال رل گئی ”
تو یہ الفاظ بجلی بن کر گرے کہ پھر ہوش نہ رہے.
/p>