اے میرے قائد ، اے میرے رہبر، اے قابلِ احترام مرشد
میں ارضِ ملتاں سے لے کر آیا ترے لئے یہ سلام مرشد
گلاب مصلوب کرنے والوں نے مجھ کو رونے نہیں دیا تھا
سو میں یہاں نذر کرنے آیا ہوں اشک اپنے تمام مرشد
جہاں پہ انصاف تیرے سینے میں کل ترازو کیا گیا تھا
وہیں پہ مسند نشیں ہیں اب بھی کسی کے ازلی غلام مرشد
بجھانے والوں کو کیا پتہ تھا تجھے بجھانا نہیں ہے ممکن
مٹانے والوں کو کیا خبر تھی ملے گا تجھ کو دوام مرشد
تمام خلقت نے تیرے افکار کو عقیدہ بنا لیا ہے
تُو کربلا کا اک استعارہ ہے تُو ہی سب کا امام مرشد
فیس بک کمینٹ