لیجئے قارئین کرام ہم سب نے گزشتہ ہفتے عید منا لی۔ اورعید بھی ہم نے خوب منائی۔شدید گرمی اور حبس کے باوجود اس تہوار کے موقع پر بہت جوش وخروش دکھائی دیا۔اور جوش وخروش اس لیے بھی تھا کہ عید انتخابی ماحول میں آئی۔ الزام تراشیوں، عدالتی کارروائیوں اور نعرہ ہائے تحسین و توہین کے درمیان اس عید کارنگ دوبالا ہوگیا۔اگرچہ بہت سے دکھ بھرے واقعات بھی اس دوران رونما ہوئے لیکن یہ دکھ بھرے واقعات ہمارے مذہبی جوش وخروش پر اثرانداز نہ ہوسکے ۔چولستان میں ریت کے طوفان کے دوران بھٹک کربھوکی پیاسی جان کی بازی ہارنے والی تین معصوم بچیوں کی وہ دردناک تصویر بھی اگرچہ عید سے پہلے ہی منظرپرآچکی تھی جس میں ان کی مسخ شدہ لاشیں ریت پر پڑی تھیں اور ان لاشوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ تھام رکھے تھے۔ ہم نے وہ تصویر دیکھی اور دردناک منظر کو فوری طورپر اپنے ذہن سے جھٹک دیا کیونکہ ہمارے اپنے بچے زرق برق ملبوسات میں ہمارے سامنے موجودتھے اور ہم ان چولستانی بچیوں کے سوگ میں اپنے بچوں کی عید خراب نہیں کرنا چاہتے تھے۔فیصل آباد میں گارڈ کے ہاتھوں قتل ہونے والی بس ہوسٹس مہوش ارشد کی ویڈیو بھی عید کے موقع پر وائرل ہو چکی تھی۔مہوش اپنے والد کے انتقال کے بعد گھر کی واحد کفیل تھی اور اس نے ایک مرد کے خواہش کی تکمیل سے انکار کیا اور جان کی بازی ہار گئی۔قارئین محترم مہوش کے قتل کی تصویریں اور ویڈیو بھی ہمارے جوش وخروش کوبالکل متاثر نہ کرسکیں ۔ ہم خوشیوں سے محروم لوگ ہیں ۔سال میں ایک دومرتبہ عید شب برات کے موقع پر ہی جشن مناتے ہیں۔ سو ایسے موقع پر کوئی دکھ بھری خبر بھی آجائے تو ہم پرواہ نہیں کرتے۔گزشتہ برس اسی عید کے موقع پر احمد پورشرقیہ کے قریب آئل ٹینکر کے حادثے میں 150 سے زائد افراد زندہ جل گئے تھے اور عید کے دنوں میں ہم ان کی تدفین کرتے رہے اور جھلس جانے والوں کو ہسپتالوں میں پہنچاتے رہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے جوش وخروش میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی تھی۔اس مرتبہ تو ہم نے عید کے موقع پر احمد پور شرقیہ والوں کو یاد کرنے کی زحمت بھی نہیں کی ۔احمد پور شرقیہ میں تو صرف 150 افراد لقمہ اجل بنے تھے ہم تواس سے بڑے بڑے واقعات بھی عید کے موقع پر نظرانداز کرچکے ہیں۔8 اکتوبر2005ء میں جو المناک زلزلہ آیاتھا۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد جاں بحق اور بے گھر ہوئے۔یہ زلزلہ رمضان کے مہینے میں آیاتھا۔ اور رمضان المبارک گزرجانے کے بعد جب عید آئی توحکمرانوں نے اپنے پیغامات میں کہا تھا کہ یہ عید ہم بہت سادگی کے ساتھ منائیں گے۔پورے آزاد کشمیر میں کہرام برپا تھا۔لوگ اپنے پیاروں کو دفن کرچکے تھے ۔بے شمار لوگ معذوراور بے گھر ہوچکے تھے ۔امدادی سرگرمیاں بھی جاری تھیں۔لیکن ہمیں یاد ہے کہ عید ہم نے اس برس بھی جوش وخروش کے ساتھ منائی تھی۔خیر یہ حوالے تو برسبیل تذکرہ آگئے ورنہ ہم تو انتخابی سرگرمیوں ،الزام تراشیوں اور نت نئے نعروں کا ذکر کررہے تھے۔ان انتخابات کا ایک نعرہ تو’’ ووٹ کو عزت دو ‘‘سامنے آیا۔سابق وزیراعظم نے بارہا یہ نعرہ لگوایا ،اپنی بے گناہی کی کہانیاں سنائیں۔اور اس نعرے کی بنیاد پر ان کے امیدوار میدان میں آگئے۔لیکن عملی صورت حال یہی ہے کہ ماضی کی طرح ان انتخابات میں بھی جونعرہ سب سے زیادہ مقبول ہوا ہے وہ لوٹوں کے حوالے سے ہے۔’’ لوٹے کو عزت دو ‘‘ کا نعرہ ابھی تک کسی نے بلند تو نہیں کیا لیکن عملی صورت حال تو یہی ہے کہ ماضی کی طرح ان انتخابات میں بھی سب سے زیادہ مقبول اور واجب الاحترام لوٹے ہی قرارپائے ہیں اور جس طرح ہمارے ہاں غیراعلانیہ کرفیو اور غیراعلانیہ مارشل لاء لگتے رہے اسی طرح لوٹوں کو عزت دو والا نعرہ بھی غیراعلانیہ ہی لگایا جا رہا ہے۔ وفاداریاں تبدیل کرنا ہمارے ہا ں سیاست کا حسن سمجھا جاتا ہے۔اور بعض خاندان تو اس حوالے سے اپنی خاص پہچان بھی رکھتے ہیں۔وہ کسی بھی پارٹی میں شامل ہوجائیں تو انہیں پارٹی کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ایسے تمام امیدواروں کا رخ ایک زمانے میں مسلم لیگ(ن)کی جانب ہوتا تھا۔ مسلم لیگ (ن) سے کچھ لوگ چٹھہ لیگ کی جانب گئے ،کچھ جونیجو لیگ چھوڑ کر دوبارہ ن لیگ کا حصہ بنے اور کچھ ایسے تھے جو مشرف صاحب کی چھتری تلے مشرف بہ اقتدار ہوئے اور ق لیگ ان کی پہچان بن گئی۔اس ق لیگ کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور خود آصف زرداری نے بھی قاتل لیگ کانام دیاتھا اورپھرچشم فلک نے دیکھا کہ ان سب لوگوں کوبعدازاں پاکستان پیپلزپارٹی ہی ایسی جماعت دکھائی دی جس کے ساتھ پاکستان کا مستقبل وابستہ تھا ۔قاتل لیگ کے پرویز الٰہی نے تو بعد ازاں پیپلزپارٹی کے ڈپٹی وزیراعظم کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیئے۔یہ عہدہ پاکستان میں صرف ایک ہی مرتبہ خاص طورپر پرویز الٰہی کے لیے تخلیق کیاگیاتھا۔سو اس مرتبہ اگر تمام وڈیرے اور سیاست کے تمام کھلاڑی عمران خان کے ساتھ ہیں تو اس میں حیران ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔حیرت ہمیں البتہ اس بات پر ہوئی کہ دھرنے کی سیاست کا آغاز کرنے والے عمران خان نے خود بنی گالا میں خطاب کرتے ہوئے دھرنا دینے والے کارکنوں سے یہ کہہ دیا کہ میں دھرنے کے دباؤ میں نہیں آ ؤں گا۔اگرہزاروں افراد بھی جمع ہوجائیں تو میں اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کروں گا۔ہم نے فیصلہ میرٹ پر کیا ہے اگر دھرنوں کے نتیجے میں فیصلے تبدیل کرتے رہے تو پھر پارٹی کیسے چلے گی۔ سوال تو ہمارے ذہن میں آیا تھا کہ عمران خان دھرنے کے ذریعے پورے ملک کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کرتے رہے لیکن اب وہ یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ دھرنے کے دباؤ میں تو پارٹی بھی نہیں چلائی جاسکتی۔ ہم نے اس سوال کو یکسر نظر انداز ر دیا کہ اسی میں ہماری اور وطن عزیز کی بھلائی تھی ۔خبریں تو بے شمار ہیں۔کاغذات نامزدگی اب اپیلوں کے مراحل میں داخل ہوچکے ہیں۔صرف ایک ماہ باقی ہے ۔اوراس ایک ماہ میں ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ جس طرح ہم نے عیدالفطر بہت جوش وخروش سے منائی کیا انتخابات کے بعد عید قرباں بھی اسی جوش وجذبے سے منائی جائے گی۔ اور اس مرتبہ قربانی کس کی ہوگی یہ فیصلہ تو 25جولائی کو ہونا ہے۔
ٌ ( بشکریہ :روزنامہ نئی بات )
فیس بک کمینٹ