پروفیسر عاصی کرنالی کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں وہاں مسلسل اور انتھک محنت کے سوا کچھ بھی تو دکھائی نہیں دیتا۔ یہ محنت اور لگن ہمیں ان کی ذاتی زندگی میں بھی دکھائی دیتی ہے اور ادبی زندگی میں بھی۔ ایک کمٹمنٹ تھی ادب کے ساتھ اور ا پنے پیشے کے ساتھ۔ ۔ 70برس پر مشتمل ادبی اور 63 سال پر مشتمل تعلیمی کیریئر میں وہ ہمیں قدم بہ قدم آگے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس دوران انہوں نے ہزاروں طالب علموں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔11 شعری مجموعوں سمیت 18 کتب تصنیف کیں۔ شاعری میں بھی سینکڑوں شاگردوں کی رہنمائی کی۔ بے شمار تقریبات میں شرکت کی۔وہ آخری سانس تک متحرک رہے۔ آرام اور سکون ان کی سرشت میں تھا ہی نہیں۔ اور کیسے ہوتا انہیں آرام اور توقف کی عادت ہی نہیں تھی۔ اگر آرام کی عادت ہوتی تو وہ 20جنوری کو ڈاکٹروں کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے سکون سے بستر پر لیٹے رہتے۔ انہیں جان لیوا ہارٹ اٹیک بھی تو اسی لیے ہوا کہ وہ ڈاکٹروں کی ہدایات کونظر انداز کر کے بستر علالت سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
عاصی کرنالی کی صحت ہمیشہ قابل رشک رہی۔ دو تین برس قبل تک تو وہ خود سکوٹر چلاتے تھے اور شہر کی سڑکوں پر سفر کرتے دکھائی دیتے تھے۔ چند برس قبل ڈاکٹر انور سدید نے جب مجھ سے ان کی صحت کے بارے میں دریافت کیا تو میں نے انہیں بتایا تھا کہ عاصی صاحب مکمل طور پر صحت مند اور چاق وچوبند ہیں۔ نہ صرف یہ کہ خود سکوٹر چلاتے ہیں بلکہ اسے سٹینڈ پر بھی خود لگاتے ہیں۔ گھٹنوں میں تکلیف کے باعث عاصی صاحب کیلئے تقریبات میں زیادہ دیر بیٹھنا ممکن نہ ہوتا تھا مگر وہ پھر بھی تسلسل کے ساتھ محفلوں میں شریک ہوتے۔ کسی کو انکار کرنا یا ناراض ہونا ان کی لغت میں تھا ہی نہیں۔ 33 برس کے دوران ہم نے بارہا ان سے اختلاف کیا، ان سے جھگڑا کیا، ان کے بارے میں تندوتیز کالم اور مضامین بھی لکھے مگر مجال ہے جو ایک آدھ بار کے سوا ان کے لبوں پر کبھی حرف شکایت بھی آیا ہو۔
ہمیں ان سے جب بھی اختلاف ہوتا ہم برملا اس کا اظہار کرتے تھے۔ ہمیں شکایت ہوتی تھی کہ عاصی صاحب کے ہاں ادب سے کمٹمنٹ تو ملتی ہے مگر وہ ادب میں نظریے کے قائل کیوں نہیں؟ ہمیں اعتراض ہوتا تھا کہ وہ فوجی ڈکٹیٹروں کے خلاف آواز بلند کیوں نہیں کرتے؟ وہ جمہوریت کے قتل پر خاموش کیوں رہتے ہیں؟ہمیں ان سے گلہ تھا کہ وہ متشاعروں کو غزلیں کیو ں دیتے ہیں؟ اور انٹر ویوز کے دوران جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کون لوگ اچھے شعر کہہ رہے ہیں تو وہ جواب میں ” اسم شماری سے معذرت“ کیوں کہتے ہیں؟ان پر یہ الزام بھی لگا کہ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے دوران محکمہ تعلیم سے وابستہ بعض جمہوریت پسند ادیبوں ، شاعروں کے تبادلوں اور گرفتاریوں میں بھی ان کا ہاتھ تھا۔ ہم ایسے بہت سے سوالات ان سے بسا اوقات جارحانہ انداز میں بھی کرتے مگر عاصی صاحب کے ماتھے پر کبھی بل نہ آتا تھا۔ وہ نئے لکھاریوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے اور بسا اوقات ان کی تعریف ” ضرورت سے زیادہ“ کے زمرے میں بھی آتی تھی۔ لیکن یہ ان کا ایک انداز تھا تربیت کا اور حوصلہ بڑھانے کا۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو نئے لکھاریوںکے کلام سے اوزان کی غلطیاں نکال کر اپنی ” کہنہ مشقی“ کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ عاصی کرنالی اپنی وضع کے انسان تھے۔ بسا اوقات تو اپنی انکساری اور ملائمت سے لاجواب کردیتے تھے ۔
ایک بارہم نے لکھا” عاصی صاحب نام کے شریف ہیں“
جواب آیا” یہ تو ایک حقیقت ہے میرا نام شریف احمد ہی ہے۔“
ہم نے لکھا” ثمر بانو ہاشمی کہتی ہیں۔ میری ساری زندگی کوبے ثمر اُس نے کیا“
کہنے لگے” وہ تو یہ کبھی نہیں کہہ سکتیں مگر آپ کا جملہ بہت خوبصورت ہے“۔
ایک مضمون میں ہم نے لکھا اگر ”لبِ خنداں“ کے تمام مضامین عاصی صاحب نے اپنی اہلیہ کے بارے میں ہی لکھے ہوتے تو پوری کتاب معرکة الآرا ہوتی۔“
عاصی صاحب نے جوابی مضمون میں اس جملے کی خاص طور پر تعریف کر دی۔
عاصی صاحب کے بارے میں ہمارے مضامین پر حسین سحر اور اقبال ارشد کو تو غصہ آجاتا تھا مگر عاصی صاحب ہمیشہ مسکرا کر ہمارے جارحانہ جملوں کا خیر مقدم کرتے۔ یہ ایک انداز تھا جواب نہ دے کر لاجواب کرنے کا۔
مشاعروں میں بھی ان کا یہی رویہ ہوتا تھا۔ ہم کبھی غزل میں کوئی غلط مصرع یا غلط لفظ استعمال کرتے تو عاصی صاحب مشاعرے کے بعد ہاتھ تھام کر ہمیں الگ لے جاتے۔ غلطی کی نشاندہی بھی اس انداز میں کرتے کہ جیسے غلطی ہم سے نہیں خود ان سے سرزد ہوئی ہو۔” بس دیکھ لیجئے گا…. ممکن ہے ہم ہی غلطی پر ہوں…. مگر شاید یہ لفظ یوں نہیں یوں ہے“۔
عاصی کرنالی کا سب سے ہی محبت بھرا تعلق تھا لیکن میرے اور ان کے تعلق میں محبت کے ساتھ شکایت بھی شامل رہی۔ اور محبت کے ساتھ جب شکایت شامل ہوجائے تو تعلق مستحکم بھی ہوتا ہے اور یکطرفہ بھی نہیں رہتا۔ مجھے اعتراف ہے کہ عاصی کرنالی نے میری شکایتوں کے جواب میں بھی مجھے محبتوں سے نوازا۔ اکتوبر 1978ء کی صبح انہوں نے نیشنل سنٹر میں میرا ہاتھ تھاما۔ بعد کے برسوں نے بھی میں نے پہلے روز کی طرح ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی مگر عاصی صاحب نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھامے رکھا۔ 20جنوری 2011ءکی شام وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر چپکے سے عدم کے سفر پر روانہ ہوگئے ۔