ادبرضی الدین رضیکالملکھاری

فاروق عدیل کا قاتل کون : روزنامہ جنگ یا مَیں اور آپ ؟ ۔۔ رضی الدین رضی

عام  خاص باغ کے ایک گراﺅنڈ میں ایک عام صحافی کا جنازہ رکھا تھا، ایک کارکن صحافی کہ جسے صحافت کے سوا کوئی اورکام آتا ہی نہیں تھا۔ اس کا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف اخبارات تھے ۔ وہ اخبارات جہاں اس نے پوری زندگی جھونک دی اور پوری زندگی گزارنے کے باوجود اس کا شمار ان لوگوں میں نہ ہوسکا کہ جو خواص کہلاتے ہیں جن کے ہاں آسودگی ہوتی ہے جنہیں اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر نہیں ہوتی ۔ ایسی زندگی تو عام کارکن صحافیوں کی بھی ہونی چاہیے لیکن صحافت کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر جائے۔ کارکن بس عام سا کارکن ہی رہتا ہے اور بقول رضا علی عابدی صحافی کی زندگی اس موم بتی جیسی ہوتی ہے جس کے دونوں سرے جلتے ہیں اور جب دونوں سرے جلتے ہیں تو صحافی کا جیون اسی طرح تیزی سے پگھلتا ہے جیسے فاروق عدیل کا جیون پگھل گیا ۔ عام خاص باغ میں جو ملتان کے ایک حکمران نے اس لئے بنوایا تھا کہ عام لوگوں کے ساتھ اس کی وابستگی کا بھر پور اظہار بھی ہو اور یہ باغ خواص کی شان وشوکت کی علامت بھی بن جائے اسی عام خاص باغ میں کچھ خواص بھی اس عام سے جنازے میں شرکت کے لئے آئے تھے ، وہ خواص جو کارکن نہیں ہیں لیکن خود کو کارکن کہتے ہیں ،جو مزدورنہیں لیکن محنت کش ہونے کادعویٰ کرتے ہیں اورجب وہ خود کو مزدور اورکارکن کہتے ہیں تو دراصل وہ ہم جیسوں پر طنز کر رہے ہوتے ہیں، ہمیں اذیت دے رہے ہوتے ہیں ۔ اسی عام خاص باغ میں صحافیوں کے کچھ لیڈر بھی تھے اور کچھ ایڈیٹر بھی ۔بڑی تعداد یقیناًکارکنوں کی تھی اور یہ اِکا دُکا خواص تو صرف اس لئے جنازے میں آئے تھے کہ عام خاص باغ بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ خواص عوام کے ساتھ اپنی وابستگی کا ڈھونگ رچا سکیں اور انہیں بتا سکیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور پھر وقت آنے پر ان سے اپنے حق میں ” ہم تمہارے ساتھ ہیں “ کا نعرہ بھی لگوا سکیں ۔ ہم جو جنازے اٹھانے ، پرسہ دینے اور ایک دوسرے کو حوصلہ دینے کے لئے پیدا ہوئے ہیں جب عام خاص باغ میں ایک دوسرے کو پرسہ دے رہے تھے ،ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے اور فاروق عدیل کو یاد کر رہے تھے تو اسی دوران سینئر صحافی مسیح اللہ خان جام پوری نے میت کے قریب موجود ایک کرسی پر کھڑے ہو کر ہم سب کو اپنی جانب متوجہ کیا اور پھر وہ سب کچھ کہہ دیاجو گزشتہ رات سے ہمارے دل میں موجود تھا۔وہ تمام سوالات جو ہم زبان پرنہیں لا رہے تھے وہ تمام وجوہات جو فاروق عدیل کی موت کی وجہ بنیں اورجن پر ہم بات کرتے ہوئے مصلحت کا شکار تھے، مسیح اللہ خان نے ہمیں متوجہ کر کے بلند آواز کے ساتھ ،بلند آہنگ کے ساتھ دکھ بھرے لہجے میں وہ سب کچھ کہہ دیا،ان کاسوال تھا کہ فاروق عدیل کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ اورجسے ہم طبعی موت کہہ رہے ہیں وہ طبعی موت نہیں قتلِ عمد ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ فاروق عدیل کو تو پاکستان کے کثیرالاشاعت اخبار نے قتل کیا۔ وہ پندرہ سال سے روزنامہ جنگ کے ساتھ وابستہ تھا اورانجام یہ ہوا کہ جب 10جنوری کو اس کی موت کی خبر اس اخبار کے دفتر میں پہنچی تو اس کے کچھ ساتھیوں کو اس کی تجہیز وتدفین کے لئے چندہ جمع کرنا پڑا ۔ فاروق عدیل کئی برسوں سے ہیپاٹائیٹس کا شکار تھا۔دفتر آنا اب اس کے بس میں نہیں تھا۔ اور جب وہ گھر بیٹھ گیا تو اس کی تنخواہ بھی بند ہو گئی ۔اس کے کچھ ساتھیوں نے شورمچایا تو انتظامیہ نے کمال فیاضی کامظاہرہ کرتے ہوئے اسے اس کے واجبات میں سے دو ماہ کی تنخواہ بھیج دی ۔اس کی موت سے چند روز پہلے اس کی اہلیہ کے فون مسلسل اس کے دفترکو موصول ہوتے رہے وہ منتیں کرتی رہی، التجائیں کرتی رہی کہ اس کے علاج معالجے کے لئے کوئی مدد کر دیں، اسے کسی ہسپتال میں داخل کرا دیں، لیکن اس کی بات پر کسی نے توجہ نہ دی شاید کسی کے پاس اس کا فون سننے کی بھی فرصت نہیں تھی ۔
لیکن چند ماہ پہلے کا ایک اور واقعہ بہت دل گداز ہے فاروق عدیل نے ایک صحافی کے طور پر بیت المال سے رابطہ کیا اور دریافت کیا کہ کیا آپ ہیپاٹائیٹس کے مریضوں کو علاج معالجے کے لئے امداد فراہم کرتے ہیں ۔ جواب مثبت ملا اور اگلے روز فاروق عدیل اپنے ہی میڈیکل سرٹیفیکٹ اور مالی امداد کی درخواست کے ساتھ بیت المال پہنچ گیا۔اس کی یہ حالت آج سے نہیں تھی ۔ اور اس کی تنخواہ بھی کتنی ہوگی زیادہ سے زیادہ 20ہزار کہ اس سے زیادہ تنخواہوں کا ملتان میں رواج ہی نہیں ۔ ساری عمر صحافت کا رزق بننے والا بیس پچیس ہزار روپے میں گھر کیسے چلاتا تھا یہ سوچنے کی مالکان کو فکر تھی نہ ایڈیٹروں کو اور نہ ہی نام نہاد اخباری تنظیموں کو ۔مجھے یہ تحریر کرتے ہوئے بہت دکھ ہو رہا ہے کہ گھرکے اخراجات پورے کرنے کے لئے اسے ہاتھ بھی پھیلانا پڑتے تھے،کبھی کسی سے سگریٹ کی ڈبیا مانگنا ہوتی تھی کبھی وہ کسی سے ایزی لوڈ کرواتا تھا اور کسی سے کوئی اور فرمائش کرتا تھا ۔پاکستان کے سب سے بڑے اخبارکے کارکن صحافی کی یہ حالت زار لوگوں کو اس سے دورکر رہی تھی ۔اس کی فون کال موصول ہوتی تو اس کے دوست بھی خوفزدہ ہو جاتے تھے کہ وہ اب ہم سے پیسوں کا تقاضا کرے گا یا کوئی اور فرمائش کرے گا۔ زندگی کو گھسیٹ رہا تھا وہ ، جیون اس کے لئے آزار بن چکا تھا، اور پھراس پر الزام لگا کہ وہ نامہ نگاروں سے ایزی لوڈ کرواتا ہے یا سگریٹ کی ڈبیا مانگتا ہے یا کسی خبر یا تصویر کے عوض پیسے طلب کرتا ہے ۔دفتر نے انکوائری کی لیکن یہ نہ سوچا کہ ان کا کارکن اگر یہ سب کچھ کرنے پر مجبور ہے تو آخر اس کی وجہ کیا ہے ۔لوگوں نے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے کی کرپشن کی صحافیوں کے لئے آنے والی رقوم ہڑپ کیں اوران کا شمار معززین میں ہوا ۔فاروق عدیل 100 روپے کے ایزی لوڈ اور سگریٹ کی ڈبیہ لینے کی پاداش میں راندہء
درگاہ ٹھہرا۔
اگرچہ مسیح اللہ خان جام پوری کی صدائے احتجاج کے بعد جنازے میں موجود روزنامہ جنگ کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر جناب ظفر آہیر نے وضاحت کی کہ صورتحال ایسی نہیں ہے جیسی بیان کی جارہی ہے ۔انہوں نے بتایا کہ ادارے نے فاروق عدیل کی بیماری کے دوران ان کا علاج کرایا انہیں مالی امداد بھی دی گئی اور اب ہم مرحوم کی بیٹی کو ادارے میں ملازمت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن اس جذباتی ماحول میں برادرم ظفرآہیر کی وضاحت لوگوں کو مطمئن نہ کر سکی ۔یہ موقع کسی سیاست کا بھی نہیں یہ موقع الزام تراشی کا بھی نہیں لیکن یہی وہ موقعہ ہے جب ہمیں یہ سوال کرنا ہے کہ اگر فاروق عدیل کے قتل میں اس کے ادارے کا ہاتھ نہیں تو پھر اس کی موت کا ذمہ دارکون ہے ؟ یہ ذمہ داری مجھ پر بھی عائد ہوتی ہے اور آپ پر بھی صرف اداروں کو موردِ الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ہو گا ۔ یہاں کچھ ایسی تنظیمیں بھی موجود ہیں جو صحافیوں کے حقوق کی پاسداری کا دعویٰ کرتی ہیں ،یہاں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو صحافیوں کے حقوق کے نام پر اوران کی فلاح وبہبود کے نام پر بہت شان وشوکت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔جب کوئی چلاجاتا ہے ،جب کوئی زندگی کی دوڑ میں تھک ہار کر گر جاتا ہے اور اپنے حصے کے سب دکھ جھیل کے اپنے بچوں کو روتا چھوڑ جاتا ہے تو پھر میں اور آپ اس کی موت پر نوحہ خوانی کرتے ہیں ،آنسو بہاتے ہیں ۔ اس کی موت کے ذمہ دارافراد کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں ۔لیکن جنازے پر ہم بہت ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ یار ہمیں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ اتنا بیمار ہے ،کسی نے ہمیں بتایا ہی نہیں ۔ کیا ہوا تھا اس کو؟ کب سے بیمارتھا وہ ؟ یہ ایسی لاتعلقی ہے جو ہمیں ایک ایک کر کے موت کی طرف دھکیل رہی ہے اور پھر ایک روز آئے گا کہ ایسے ہی کسی باغ میں یا کسی پلاٹ یا کسی جناز گاہ میں ہمارا جنازہ بھی پڑا ہو گا اور ہمارے ساتھی ہمارے بارے میں بھی ایسے ہی سوالات کریں گے کہ کارکن کا انجام تو یہی ہوتا ہے خواہ وہ نذرعباس بلوچ ہو ،فاروق عدیل ہو یا مَیں اور آپ ۔

فیس بک کمینٹ

متعلقہ تحریریں

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker