10 جنوری 2017ء کو نیاز احمد کو بچھڑے دو برس بیت گئے۔ گزرے ہوئے سات سو تیس دنوں میں وہ روزانہ اس لیے یاد آئے کہ میرے سرہانے کی میز پر ہر وقت انہی کی شائع کردہ کتب میرے مطالعے میں رہتی ہیں۔ میرے گمان میں یہ بات آج بھی کہیں نہ کہیں موجود ہے کہ نیاز احمد سنگ میل پبلی کیشنز کی ہر کتاب کو آج اُسی انداز سے دیکھتے ہوں گے جس طرح وہ اپنی زندگی میں ہر کتاب شائع کرتے ہوئے اس کی نوک پلک سنوارتے تھے۔ نیاز احمد نے اپنے کاروباری سفر کا آغاز لاہور سے باہر مختلف شہروں میں کتب کی فروخت سے کیا۔ جب انہیں مارکیٹ میں بکنے والی کتابوں کے متعلق بنیادی معلومات ہو گئیں تو انہوں نے 1962ء میں سوچا کہ کیوں نہ لاہور میں ایک اور اشاعتی ادارہ قائم کیا جائے جو نایاب کتب کو شائع کرے۔ آغاز میں انہوں نے 2 کتابیں اولیائے لاہور اور اولیائے ملتان شائع کیں تو انہیں بےحد پذیرائی ملی۔
نیاز احمد سے میری پہلی ملاقات 1987ء میں ہوئی۔ رضی الدین رضی اُن دنوں بشریٰ رحمن کے اشاعتی ادارے ’’وطن دوست‘‘ سے وابستہ تھے۔ 1987ء میں ہی جب مَیں نے ’’کتاب نگر‘‘ کا آغاز کیا تو اس وقت مسلم مسجد لوہاری گیٹ کی مارکیٹ میں کتابوں کی دو مشہور دکانیں ’آئینہ ادب‘ (عبدالسلام) اور ’شعاعِ ادب‘ (محمد حلیم) ہوا کرتی تھیں۔ آئینۂ ادب چھوٹے سائز کی اہم کتابوں کا پبلشر تھا جبکہ شعاع ادب کے پاس صدیق سالک، شفیق الرحمان، بشریٰ رحمان، پروین شاکر، کرنل محمد خان، ادا جعفری اور دیگر معروف اہلِ قلم کی کتابوں کی تقسیم کا کام ہوتا تھا۔ ایک دن شعاعِ ادب پر بیٹھا ’’کتاب نگر‘‘ کے لیے کتب کا انتخاب کر رہا تھا تو درمیانے قد، فربہی مائل وجود، گندمی رنگت لیکن تیکھے نین نقش والے ایک صاحب اپنے ہاتھ میں شہاب نامہ لے کر آئے اور شعاعِ ادب کے مالک کو شہاب نامہ دکھانے لگے۔ اپنے پڑھنے والوں کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ شہاب نامہ کے پہلے ایڈیشن کی قیمت 250/- روپے تھی۔ رضی بھی میرے ساتھ شعاعِ ادب پر بیٹھا ہوا تھا۔ شہاب نامہ کو دیکھتے ہی رضی نے کہا ’’ایوب خان کے کاسہ لیس نے کتاب میں کتنا سچ بولا ہے یہ صرف خدا ہی بہتر جانتا ہے۔‘‘ رضی کا یہ کہنا تھا کہ نیاز احمد مسکرا دیئے۔ کیونکہ نیاز صاحب کی باریک بین آنکھ نے دیکھ لیا تھا کہ ملک کے کتابوں کے شوقین خواتین و حضرات کے پاس ایک ایسی کتاب آنے والی تھی جس کا تذکرہ ہر شعبۂ زندگی سے تعلق والے لوگ کریں گے۔ اُسی وقت مَیں نے نیاز احمد سے ہاتھ ملایا۔ اپنا تعارف کرایا تو کہنے لگے قریب ہی میرے اشاعتی ادارے کا شو روم ہے آپ تشریف لائیں۔ اگلے آدھے گھنٹے بعد مَیں اور رضی نیاز احمد کے ادارے میں موجود تھے۔ ان کا شوروم نامور لکھنے والوں کی کتابوں سے بھرا پڑا تھا۔ اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی، مستنصر حسین تارڑ، انتظار حسین، اے حمید، ڈاکٹر سلیم اختر، کشور ناہید اور قرۃ العین حیدر کی کتب نیاز احمد شائع کر چکے تھے۔ 1987ء میں ان کا سب بڑا دھماکہ شہاب نامہ تھا جسے قدرت اﷲ شہاب نے تحریر کیا۔ وقت گزرتا گیا میرا اُن کے ساتھ تعلق کاروباری کم اور ذاتی زیادہ ہوتا چلا گیا۔ ان کے دو بیٹوں اعجاز احمد اور افضال احمد نے بھی ہمیشہ بڑے بھائیوں کی طرح عزت کی۔ اعجاز احمد عین جوانی میں ﷲ کو پیارا ہو گیا۔ یہ صدمہ نیاز صاحب نے بڑی ہمت سے جھیلا۔ اعجاز احمد کے بعد انہوں نے اعجاز کے بیٹے علی اعجاز کو بیٹا بنا کر اپنے ہی شعبہ کی اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لیے بیرونِ ملک بھیج دیا۔ اعجاز احمد کی دائمی جدائی کے باوجود ان کے کتابیں شائع کرنے کے جنون میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ انہوں نے پہلے سے کہیں زیادہ اپنے آپ کو کتابوں میں مصروف کر لیا۔ انہوں نے اپنے اشاعتی سفر میں جہاں نامور اہلِ قلم کی کتابیں شائع کیں وہاں انہوں نے نایاب کتابوں کو شائع کر کے ان کو نئی زندگی عطا کی۔ یہ وہ کتب تھیں جن کو پاکستان میں اس سے پہلے کسی اور نے اس لیے شائع نہ کیا کہ ان کی فروخت نہ ہونے کے برابر تھی۔ ایسی کتب میں منشی محمد حسین جاہ کی طلسم ہو شربا، رتن ناتھ سرشار کی فسانۂ آزاد۔ گزیٹیئر، منشی عزیز الدین کی تاریخ چترال، مولوی محمد ذکاء ﷲ صاحب دہلوی کی تحریر کردہ تاریخ ہندوستان اور اسی طرح کی نادر و نایاب کتب شامل ہیں اس کے علاوہ نیاز احمد کا ایک اور شوق یہ ہوا کرتا تھا کہ جب بھی کسی ادیب شاعر کا ملک میں جشن منایا جاتا وہ ان کی کتابیں بڑے اہتمام سے شائع کرتے مثال کے طور پر انہوں نے فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، قرۃ العین حیدر، بابا محمد یحییٰ خان، جسٹس جاوید اقبال، عطاء الحق قاسمی، رضا علی عابدی، مستنصر حسین تارڑ، امجد اسلام امجد سمیت بے شمار لکھنے والوں کی کتابوں کو خوب سے خوب تر بنا کر شائع کیا۔
نیاز احمد سے جب بھی ملتا ان کی شخصیت میں ہمیشہ روایتی لاہوری انداز لازمی دکھائی دیتا۔ مثال کے طور پر ان کے دسترخوان پر مَیں نے انہیں کبھی اکیلا نہیں دیکھا۔ ہمیشہ چار پانچ دوست ان کے اردگرد موجود ہوتے۔ کبھی سیاست یا ادب پر بات نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ سماجیات ان کا موضوع ہوتا۔ ادب سے اتنا لگاؤ تھا کہ وہ اپنی ہر کتاب کا شائع کرنے سے قبل بغور مطالعہ کرتے۔ اس حقیقت کا ادراک تب ہوا جب انہوں نے نامور سفرنامہ نگار، ادیب و مزاح نگار ڈاکٹر عباس برمانی کا پہلا سفرنامہ ’’کیلاش کتھا‘‘ شائع کیا تو انہوں نے تب ہی پیشگوئی کر دی تھی کہ عباس برمانی مستنصر حسین تارڑ کا جانشین ثابت ہو گا۔ ان کی یہ بات پوری ہوئی اور ڈاکٹر برمانی نے خوب نام کمایا۔ نیاز احمد کو پاکستان کے ہر شہر کے لذیذ کھانوں کے ہوٹلوں کا علم تھا۔ اکثر ملتان آتے تو گھنٹہ گھر کی چانپ، پاک گیٹ کے دال مونگ، دولت گیٹ کے چنے، کینٹ کے گول گپے، خونی برج کا فالودہ اور حسین آگاہی کا حافظ کا ملتانی سوہن حلوہ کھانا ضرور پسند کرتے۔ آخری مرتبہ جب آئے تو مَیں نے ان کا کھانا کیا تو کہنے لگے دل کی سرجری کے بعد اب مَیں کھانے پینے میں بہت احتیاط کرتا ہوں۔ گھی اور آئل کے بغیر پکی ہوئی چیزوں کو پسند کرنے لگے۔ مَیں نے ان میں جب یہ تبدیلی دیکھی تو پوچھا نیاز صاحب کیا آپ اپنے دوستوں کو بھی اپنا پرہیزی کھانا کھلاتے ہیں؟ مسکرا کر کہنے لگے میرے دسترخوان پر ﷲ کی دی ہوئی تمام نعمتیں موجود ہوتی ہیں جس نے جو کھانا ہوتا ہے وہ اپنے نصیب کا کھا لیتا ہے۔
ہمارے ملک میں پبلشرز اور لکھنے والوں کی لڑائی ہی رہتی ہے لیکن نیاز صاحب کا معاملہ بالکل مختلف تھا۔ ایک مرتبہ نیاز صاحب نے کہا آؤ کہیں جا کر چائے پیتے ہیں۔ سردیوں کے دن تھے کہنے لگے چائے بعد میں پیتے ہیں پہلے اے حمید کو رائلٹی دینے جانا ہے۔ وہ اے حمید کے گھر گئے لفافے میں انہیں رائلٹی ادا کی۔ اے حمید نے کہا جس کتاب کی آپ رائلٹی دے رہے ہیں اس کی شکل تو دکھائی ہوتی۔ نیاز صاحب کہنے لگے کتاب آنے میں کچھ دن لگیں گے۔ آپ کی ضروریات کا مجھے علم ہے اس لیے رائلٹی آپ کو ادا کرنے چلا آیا۔ اسی طرح نیاز احمد نے جب کلیات شکیب جلالی شائع کر کے اس کی رائلٹی ان کی بیوہ کو بھجوائی تو شکیب جلالی کی بیوہ نے کہا مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے خاوند کی طرف سے کچھ مالی طور پر رقم ملی ہے اس رائلٹی کے پیسوں سے شکیب جلالی کی بیوہ نے عمرہ کی سعادت حاصل کی۔
نیاز احمد دوستوں کے دوست تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے ان کے ایک دوست مظفرگڑھ میں قیام پذیر تھے ایک دن نیاز صاحب کو معلوم ہوا کہ ان کے دوست کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا۔ ان کا فون آیا کہ مَیں دو دن بعد ملتان آ رہا ہوں۔ مجھے اپنے ایک دوست کی اہلیہ کے انتقال کی تعزیت کرنے مظفرگڑھ جانا ہے آپ میرے ساتھ چلیں گے۔ میرا خیال تھا کہ ان کا وہ دوست کوئی امیر کبیر خاندان سے ہو گا۔ مظفرگڑھ پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ ان کا وہ دوست محکمہ تعلیم میں نوکری کرتا ہے۔ دو چھوٹے سے کمروں والے گھر جا کر ہم نے تعزیت کی اور پھر ملتان واپسی ہوئی۔ اسی طرح جب نیاز احمد کو ایک مرتبہ یہ علم ہوا کہ نامور افسانہ نگار اور سول جج عباس خان کی اہلیہ دنیا سے کوچ کر گئی ہیں تو وہ عباس خان سے تعزیت کے لیے فوراً ملتان پہنچے۔ کچھ وقت ان کے گھر بیٹھے اس کے بعد ملتانی دوستوں سے ملے بغیر لاہور چلے گئے۔ یاد رہے یہ وہی عباس خان ہیں جنہوں نے اپنی پوری ملازمت کے دوران کسی کی سفارش نہیں مانی صرف میرٹ پر فیصلے کیے۔
نیاز احمد دنیا سے کوچ کر گئے لیکن ان کی شائع کردہ کتب کو دیکھ کر سب یہی کہتے ہیں کہ وہ ہمارے منشی نول کشور ہیں۔ میری رائے اس سے مختلف نہیں البتہ یہ ضرور سوچتا ہوں کہ نیاز احمد نے پاکستان میں نول کشور سے زیادہ کام کیا۔ گلزار نے کئی سال پہلے ’’کتابیں جھانکتی ہیں‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی جس میں کتابوں کی زبوں حالی کا نوحہ ملتا ہے۔ لیکن نیاز احمد نے جو کتب شائع کیں اس سے ان کتابوں کو نئے قاری ملے جو ایک عرصے سے الماریوں میں بند تھیں ان کے ایڈیشن ختم ہو چکے تھے۔ نیاز احمد نے ایسی بے شمار کتابوں سے مٹی جھاڑی، ان کو نئے انداز آسے شائع کیا جس سے ملک میں پبلشنگ کی دنیا میں انقلاب آیا۔ انہوں نے کتابوں سے عشق کیا اسی عشق نے ان کو لازوال شہرت عطا کی کہ نیاز احمد خود تو دو سال پہلے ہم سے جدا ہو گئے لیکن ان کی شائع کردہ کتب ان کی یادوں کو ہم سے محو نہیں ہونے دیتیں کہ بقول گلزار:
’’کتابیں جھانکتی ہیں اور نیاز احمد کتاب کے ہر ورق اور لفظ میں موجود ہوتے ہیں اور کہتے ہیں اگر مجھے کسی نے ملنا ہو، یاد کرنا ہو، وہ کتابوں کا سنگ میل طے کرے اور مجھ سے ملاقات کر لے۔ مَیں ہر کتاب میں اپنے چاہنے والوں کو ملوں گا۔‘‘
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ