جنید جمشید چلا گیا ۔ دل دل پاکستان چلا گیا ۔ لیکن کارواں تو چلتا رہے گا کہ ’چلتا رہے یہ کارواں‘ کا یقین بھی اسی نے تو دلایا تھا اور اس وقت دلایا تھا جب ہم میں سے کسی کو بھی امید نہیں تھی کہ یہ کارواں چلتا رہے گا ۔ اور جب جنید نے کہا تو ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی یقین آ گیا۔ نازیہ اور زوہیب کے بعد اس وقت کی نئی نسل کو جس میں مَیں بھی شامل تھا اگر کسی نے متوجہ کیا تو وہ جنید جمشید ہی تھا ۔ صرف متوجہ ہی نہیں کیا اس نے ہم مایوس لوگوں کے دل میں پاکستان آباد کیا ۔ ہم جو ضیا دور میں قومی ترانوں سے بھی اکتا چکے تھے جنید کی آواز پر لہکنے لگے اور تھرکنے لگے ہر گلی ہر محلے اور ہر دل میں دل دل پاکستان گونجنے لگا اور دھڑکنے لگا ۔ اور جب اس گیت کے دوران والہانہ انداز میں رقص کرتے ہوئے ہم پوری قوت کے ساتھ ‘دل دل پاکستان ‘ کا نعرہ مستانہ بلند کرتے تھے تو ہماری آنکھوں سے جوشِ جذبات میں آنسو بھی چھلکتے تھے اور یہ دکھ کے نہیں خوشی کے اور پاکستان سے محبت کے آنسو ہوتے تھے ۔ پھر ہم نے تہیہ کر لیا کہ ایسی زمیں اور ایسے آسمان کو چھوڑ کر ہم نے کہیں نہیں جانا ۔ کہیں بھی نہیںجانا کہ ہمارا اس کے سوا کوئی اور ٹھکانہ ہو ہی نہیںسکتا ۔ جنید جمشید کی زندگی کے کئی رنگ ہیں وہ ایک سمت میں نہیں کئی سمتوں میںچلا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے عقائد میں تبدیلی آئی ۔ اس نے گٹار چھوڑ کر مسواک کے ساتھ وابستگی اختیار کی اور تبلیغ شروع کر دی ۔ ہم جو اس سے محبت کرتے تھے ہمیںاس کے نظریات سے اختلاف ہو گیا ۔ جینز والے جنید نے سر پر ٹوپی رکھی اور چینلز پر بیٹھ کر گفتگو کرنے لگا ۔ عورت کے بارے میں اس کی انتہا پسندانہ گفتگو ہمیں بُری لگنے لگی ۔ وہ گفتگو میںغیر مہتات تھا سو ایک ٹی وی پروگرام میں ایسی ہی گفتگو کے نتیجے میں مولویوں کی پکڑ میں آ گیا اسے دست بستہ معافی بھی مانگنا پڑی۔ مولانا طارق جمیل بھی اس موقع پر اس کی مدد کو آئے مگر معاملہ بڑھتا گیا اور اسے کچھ عرصہ کے لئے ملک چھوڑنا پڑ گیا۔ چند ماہ قبل اسلام آباد ائرپورٹ پر وہ انتہا پسندوںکے نرغے میںآ گیا ۔ وہی انتہا پسندی جسے وہ خود فروغ دیتا تھا اس کے مد مقابل آ گئی تھی ۔ اس روز جنید جمشید کے چہرے پر جو بے بسی تھی اور جس طرح وہ مشتعل مولویوں کے نرغے سے نکلنے کے لئے لائونج میں بھاگ رہا تھا وہ منظر بہت تکلیف دہ تھا ۔ اس کی موت سے بھی زیادہ تکلیف دہ ۔ میں اس سے پہلے اس کے بہت سے خیالات اور نظریات سے بھر پور اختلاف کر چکا تھا ۔ لیکن اس روز بہت سے دوستوں کے اصرار کے باوجود میں نے اس وڈیو کے حوالے سے اس کے بارے میں کچھ بھی نہ لکھا ۔ اور اس لئے نہ لکھا کہ جسے اب اس کے اپنے ہی معاف کرنے کو تیار نہیں اسے کم از کم ہمیں تو معاف کر دینا چاہیئے ۔ وہ اب جیسا بھی تھا لیکن اس نے ہمارے دل میں پاکستان تو آباد کیا ۔ وہ ملبوسات کے کاروبار کی وجہ سے بھی ’اپنوں‘ کی نفرت کا شکار ہوا ۔ مولوی اس کے گھر آنا پسند نہیں کرتے تھے اور اگر چلےبھی جاتے تو اس کے گھر کھانا تو دور کی بات پانی پینا بھی گوارہ نہ کرتے تھے ۔اس کی موت کے بعد بھی اس کے بارے میں طرح طرح کی گفتگو چینلز پر جاری رہی کسی خفیہ شادی کا تذکرہ بھی ہوتا رہا ۔ لیکن مجھے ان تمام باتوں سے کوئی سروکار نہیں ۔ وہ جو بھی تھا جیسا بھی تھا اس نے میرے دل میں پاکستان بسایا تھا ۔ مجھے ’دل دل پاکستان‘ کا نعرہ دیا اور اس نعرے پر جو آنسو پہلی بار میری آنکھوں سے پاکستان کے لئے چھلکے تھے وہی آنسو میں آج جنید جمشید کی نذر کرنے آیا ہوں ۔
فیس بک کمینٹ