اُس شخص کی عمر کوئی چالیس پچاس سال کے درمیان ہو گی اُس کی داڑھی اور سر کے بال سفید اور کچھ کالے تھے اُس کا نام کسی کو معلوم نہیں تھا اورنہ ہی کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی ۔وہ ہمارے محلے میں کرائے کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا تھا اُس کے بال بچے کسی دوسرے شہر میں رہتے تھے ۔وہ ہر روز صبح آٹھ نو بجے کے قریب تیار ہو کر گھر سے نکلتا اور رات گئے واپس آتا وہ کیا کرتا ہے اور کہاں جاتا ہے یہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ جمعہ کے روز وہ چھٹی کرتا تھا لیکن وہ ہر جمعے کو باقاعدگی سے پوسٹ آفس جاتا کاغذ اور بال پوائنٹ اُس کے ہاتھ میں ہوتا وہ سیدھا کاؤنٹر پر جاتا منی آرڈر فارم اور لفافے خریدنے کے بعد وہ بینچ پر بیٹھ جاتا پہلے خط لکھ کر لفافے میں بند کرتا پھر منی آرڈر فارم پُر کرنے کے بعد کاؤنٹر پر جاتا ۔منی آرڈر فارم اور ہزار ہزار کے نوٹ کلرک کی طرف بڑھاتے ہوئے کہتا ’’بابو جی یہ منی آرڈر کردیں ’’منی اآڈر کروانے کے بعد وہ واپسی پر لفافے لیٹر بکس میں ڈالتا اور گھر واپس آ جاتا ۔ پوسٹ آفس کا عملہ حیران تھا کہ یہ ایسا کون سا کام کرتا ہے جو ہر ہفتے تین چار ہزار روپے خرچہ بھیجتا ہے ۔اتنی تو ہماری تنخواہ بھی نہیں ہے ۔گھر پُہنچ کر وہ جمعہ نماز کی تیاری میں لگ جاتا،جمعہ کے روز وہ بہت اہتمام سے نماز کی ادایئگی کے لیے مسجد جاتا اور پہلی صف مین بیٹھ جاتا نماز کے بعد وہ محلے کے ہوٹل سے کھانا کھاتا اور گھر واپس آنے کی بجائے کہیں اور نکل جاتا ۔ وہ خاصی پُر اسرار شخصیت کا مالک تھا ۔لوگ اُس کے بارے میں مختلف قسم کی رائے رکھتے تھے کسی کی رائے تھی کہ وہ سمگلر ہے ۔جبکہ کسی کی یہ رائے تھی کہ یہ کسی محکمے میں راشی کلرک ہے اُس شخص میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ آتے جاتے ہر راہگیر اور دوکاندار کو سلام ضرور کرتا تھا ۔ایک روزمیں دفتر جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی ،میں باہر نکلا تو وہ دروازے پر کھڑا تھا ۔ ہزار ہزار کے نوٹ اور ایک لفافہ مجھے تھماتے ہوئے بولا ’’ بابو جی دفتر جائیں تو میرا یہ منی آرڈر کروا دیں اور یہ خط پوسٹ کر دیجیئے گا آپ کی مہربانی ہو گی میں رسید شام کو آپ سے لے لوں گا ‘‘۔ مجھے نہیں معلوم کہ اُسے کس طرح معلوم ہوا کہ مین پوسٹ آفس میں کام کرتا ہوں اُس کے بعد اُسکا معمول بن گیا کہ وہ ہر جمعے کو مجھے پیسے منی اآڈر کروانے کے لیے دے جاتا اب تو مجھے اُس کا اور جہاں وہ پیسے بھیجا کرتا تھا نام وپتہ زبانی یاد ہوگیا تھا ۔ اسی حوالے سے اُس سے میری تھوڑی بہت جان پہچان ہو گئی تھی ۔میں نے کئی مرتبہ یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کیا کام کرتا ہے لیکن وہ ہر مرتبہ مجھے ٹال دیتا ایک روز وہ جمعہ کی نماز پڑھ کر نکل رہا تھا کہ مسجد کے دروازے پر میری اُس سے ملاقات ہو گئی مجھ سے کہنے لگا آئیں بابو جی آپ کو کھانا کھلاؤں ۔ میرے انکار پر وہ کہنے لگا چلیں چائے ہی پی لیں مین دوسری بار انکار نہ کر سکا وہ مجھے ساتھ لے کر محلے کے ہوٹل میں گیا اپنے لیے کھانے اور میرے لیے چائے کا آڈ ر دینے کے بعد بولا ’’ بابو جی آپ جمعہ نماز پڑھنے کے بعد کیا کرتے ہیں ؟ کرنا کیا ہے بس آرام کرتا ہوں ۔ مین نے جواب دیا اس پر وہ بولا ’’قرآن میں اللہ کا حکم ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد زمین پر پھیل جاؤ اور اپنے رب کا فضل تلاش کرو ۔اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘ میں نے کہا اس کا مطلب ہے نماز کے بعد اپنے اپنے کاروبار میں لگ جاؤ ‘‘ میرے اس جواب پر وہ بولا ’’ ایک عرصہ تک میں بھی اس آیت کا یہی مطلب سمجھتا تھا لیکن مجھے بعد میں پتہ چلا اس کا مطلب کچھ اور ہے ۔ کیا ہے ؟ میں بولا میرے اس سوال پر وہ کہنے لگا ’’ رب کا فضل تلاش کرو کا مطلب ہے کہ زمین پر پھیل جاؤ اور نیکیاں تلاش کرو ۔ کبھی کسی نیکی کو معمولی نہ سمجھو ‘‘ پھر وہ مجھے سمجھانے کے انداز میں بولا ۔ جس پر رب کا فضل ہوتا ہے نیکی کی توفیق بھی اُسی کو ہوتی ہے آپ ایسا کریں کہ کسی روز جمعہ کے بعد اپنے کسی غریب رشتہ دار یا دوست کے گھر چلے جائیں ۔اگر ہو سکے تو بچوں کے لیے پھل یا مٹھائی ساتھ لے جائیں آپ دیکھیئے گا کہ آپ کا رشتہ دار یا دوستآپ کو دیکھ کر کتنا خوش ہوتا ہے اور کسی کو خوش کرنا بہت بڑی نیکی ہے اسی طرح آپ کبھی کسی مریض کی عیادت کو چلے جائیں ۔ یہ بھی نیکی ہے اگر کچھ بھی نہ کر سکیں تو کم از کم اتنا کریں کہ کسی جمعے کو دو چار روپے کا باجرہ خر ید کر کسی پارک میں چلے جائیں اور کسی ایسے درخت کے نیچے جہاں پرندوں کا آنا جانا ہو یہ باجرہ پھیلا دیں اور خود کسی درخت کے سائے میں بیٹھ جائیں ۔ آپ دیکھیں گے بہت سے پرندے جن میں چڑیا ،کوئے ،مینا ، بلبل ، اور طوطے وغیرہ جمع ہو جائیں گے وہ دانہ چگنے کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی زبان میں رب کی تعریف بھی کرتے جائیں گے اُن پر ندوں کو دیکھ کر آپ کو ایسا لگے گا کہ آپ کے اندر سے خوشی کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں جب انسان کی یہ کیفیت ہو تو سمجھ لیں کہ آپ کا رب بھی آپ سے خوش ہے ۔ کچھ عرصہ بعد وہ شخص مکان چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا میں بھی اس شخص کو بھول چُکا تھا ایک مرتبہ جب دسمبر یا جنوری کی با۵ت ہے جب ملتان مین کوئیٹہ سے آنیوالی سرد ہوائیں چل رہی تھیں میں ایک رات اپنے ایک مہمان کو رخصت کرنے ریلوے اسٹیشن گیا گاڑی لیٹ تھی رات گئے میں مہمان کو رخصت کر کے اسٹیشن سے باہر آیا سردی اپنے عروج پر تھی اسٹیشن کے باہر ایک رکشہ والا چادر اوڑھے سواری کے انتظار میں بیٹھا تھا ۔ میں نے اُس کے پاس جا کر پوچھا ’’ کیوں بھائی چلنا ہے ؟ اِس سے پہلے کہ وہ مجھے دیکھ کر چادر میں منہ چھپاتا میں نے اُسے پہچان لیا یہ وہی تھا جس کا ذکر اوپر کر چُکا ہوں اچھا تو آپ یہ کام کرتے ہیں لیکن اس کام میں تو اتنی آمدنی نہیں۔ بابو جی ۔ میں نے یہ کام بعد میں شروع کیا ہے اس سے پہلے میں لوگوں کی جیب کاٹتا تھا ۔ کیا ؟ میں نے حیرت سے پوچھا ۔ جی ہاں میں جیب کترا تھا میں آپ کو سب کچھ بتاتا ہوں لیکن پہلے ایک کپ چائے کا ہو جائے سردی بھت زیادہ ہے میں اُس کی کہانی سننا چاہتا تھا اس لیے انکار نہ کر سکا اور اُس کے ساتھ مسافر خانے کی طرف چل دیا ۔ وہاں ایک خالی بینچ پر ہم دونوں بیٹھ گئے چائے کا آڈ ردینے کے بعد اُس نے اپنی کہانی یوں شروع کی ۔ بابو جی جیسا کہ میں پہلے بتا چُکا ہوں کہ میں جیب کُترا تھا اور لوگو ں کی جیب کاٹنا میرا پیشہ تھا ایک روز ایک شخص صدر کی طرف جا رہا تھا میں نے اُس کی جیب کو دیکھ کر اندازہ لگالیا کہ اُس کی جیب میں کچھ ہے ۔ مین اُس کے پیچھے پیچھے ہو لیا اور موقع ملتے ہی اُس کی جیب سے بٹوا اُڑا لیا ۔گھر پہنچ کر میں نے وہ بٹوا کھولا تو اُس میں سے سو سو روپے کے کچھ نوٹ ،شناختی کارڈ اور ڈاکٹر کا نُسخہ نکلا میں سمجھ گیا کہ یہ شخص دوائیں خریدنے جا رہا تھا ۔ یقیناً اس کا کوئی عزیز بیمار ہو گا بابو جی اُس روز مجھے پہلی مرتبہ اس کام سے نفرت ہونے لگی میں رات بھر جاگتا رہا ۔ صبح ہوتے ہی میں نے بٹوا لیا اور اُس کے گھر پہنچ کر دروازے پر دستک دی ۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور ایک پریشان حال شخص باہر نکلا میں پہچان گیا یہ وہی شخص تھا جس کی جیب میں نے گزشتہ روز کاٹی تھی ۔ میں نے بٹوا اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ کل آپ کا بٹوا مجھے راستے میں ملا تھا آپ اپنی امانت واپس لے لیں بٹوا دیکھتے ہی خوشی سے اُس کی آنکھیں چھلک پڑیں وہ بار بار میرا شکریہ ادا کر رہا تھا ۔ مین خاموشی کے ساتھ واپس آگیا اور فیصلہ کر لیا کہ آئندہ یہ کام نہیں کروں گا اور حلال روزی کماؤں گا میں نے ایک دوست کی مدد سے ڈرائیونگ سیکھی اور رکشہ چلا نا شروع کردیا ۔خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے مجھے توبہ کی توفیق دی چائے کے ساتھ اُس کی کہانی بھی ختم ہو چکی تھی ۔ اُس نے مجھے رکشہ پر بٹھایا اور گھر کے نزدیک اُتار کر کرایہ لیے بغیر واپس مُڑ گیا ۔ میں کھڑا اُسے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ شخص کتنا خوش نصیب ہے ۔ میں ابھی رب کا فضل تلاش کرنے کا سوچ ہی رہا تھا اور اُس نے رب کا فضل تلاش کر لیا
فیس بک کمینٹ