آج کی اہمیت آج سے زیادہ کل ہوتی ہے۔ لیکن آج ہمیں اپنے کل کا ادراک نہیں ہوتا۔ہمیں اس کاادراک اس وقت ہوتا ہے جب کبھی بیس پچیس برس پرانا کوئی منظراچانک ہمارے سامنے آجاتاہے کسی تحریر کی صورت میں ،کسی تصویر، کسی اخبار کے تراشے، کسی خط یا کسی خوشبودار عید کارڈ کی صورت میں۔ اور پھروہ منظر ہمیں حیران کردیتا ہے۔
بہت سی تصویریں ایسی بھی ہیں کہ جب ہم نے وہ بنوائیں تو ہمیں احساس ہی نہیں تھا کہ 15 یا 20برس بعد وہ تصویریں ہمارے لیے کتنی اہم ہوجائیں گی کہ جب ان تصویروں میں موجودبہت سے لوگ یاد بن چکے ہوں گے اورجسمانی طورپر ہمارے ساتھ نہ ہوں گے اورہم تنہا اس بات کے منتظرہوں گے کہ ہم کب کسی کی یاد بنتے ہیں۔پھرہم ان تصویروں کودیکھیں گے اور سینے سے لگا کررکھیں گے۔ اسی لیے تو کہا کہ ہمیں اپنے آج کی اہمیت کل معلوم ہوتی ہے۔
کچھ ایسا ہی ادبی بیٹھک کے ساتھ بھی ہوا ۔ یہ بیٹھک کیسے اور کن حالات میں قائم ہوئی ۔ یہ توہم بارہا دہرا چکے۔ جب اس بیٹھک کا آغاز ہوا توہم میں سے کسی کو بھی یہ گمان نہیں تھا کہ ہم اس بیٹھک کی دسویں سالگرہ بھی منائیں گے۔امکان یہی تھا کہ اور بہت سی تنظیموں ، اداروں اور رسائل و جرائد کی طرح یہ بیٹھک بھی دو چارماہ یا دوچارسال بعدہانپ جائے گی اور اپنے انجام کوپہنچے گی۔حقیقت یہ ہے کہ پہلے برس ہی وہ لمحہ آگیاتھا جب ہم نے اس بیٹھک سے علیحدگی اختیارکرنے کی ٹھان لی۔پھر ان دس برسوں کے دوران بارہا یہ امکان پیداہوا کہ شاید یہ بیٹھک اب زیادہ عرصہ نہ چل سکے۔کبھی دشمنوں کی وجہ سے اس بیٹھک کا مستقبل خطرے میں دکھائی دیا تو کبھی بعض ”دوستوں“ کی وجہ سے ۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ آج ہم اس بیٹھک کے دس سال مکمل کرچکے ہیں۔گویا بیٹھک کا پہلا عشرہ مکمل ہوا اور ہم اسے محنت کاعشرہ کہتے ہیں کہ ان دس برسوں کے دوران ہم سب نے مسلسل محنت کے ساتھ اس بیٹھک کاوجود برقراررکھا ۔
شاید ہم کمزور پڑ جاتے ۔شاید ہم ہمت ہارجاتے ، شاید یہ بیٹھک بہت پہلے ختم ہوجاتی لیکن ان بہت سے دوستوں کاشکریہ جومایوس ہوکر ہمارا ساتھ چھوڑ گئے اور ان بہت سے احباب کا شکریہ جنہوں نے بیٹھک میں نہ آنے کی قسم کھائی اور ان بہت سے مہربانوں کی بھی عنایت جنہوں نے اس بیٹھک کو”اٹھک بیٹھک“ قراردیا اورمختلف افسروں کی خدمت میں اس بیٹھک کے خلاف تحریری درخواستیں پیش کیں اورمطالبہ کیا کہ اس ” مذموم“ سرگرمی کو بند کرایا جائے۔ اگر وہ سب اتنی تگ ودو نہ کرتے تو شایدہم کب کے ہمت ہارچکے ہوتے اور یہ بیٹھک بند ہو چکی ہوتی ۔
ابتدائی برسوں کے دوران ادبی بیٹھک کا ریکارڈ بہت باقاعدگی کے ساتھ مرتب کیاگیا۔رپورٹیں بھی تحریر ہوئیں ۔خبریں بھی باقاعدگی کے ساتھ جاری کی گئیں۔ تصویریں بھی ہرہفتے بنائی جاتی تھیں ۔پریس فوٹوگرافرعقیل چوہدری کسی اعزازیئے یا لالچ کے بغیر بہت محبت کے ساتھ یہ تصویریں بنا کر اخبارات کو جاری بھی کرتے تھے جو ہرہفتے شائع بھی ہوجاتی تھیں لیکن پھر یہ سلسلہ اس لیے روک دیاگیا کہ بعض اخبارات کو ادبی بیٹھک کی خبر اور تصویر بوجھ محسوس ہونے لگی تھی اور وہاں موجود ہمارے دوست ہماری خبریں شائع کرکے مشکلات کاشکارہوجاتے تھے۔اب تو خیربہت سے اخبارات ہی ماضی کاحصہ بن گئے لیکن ادبی بیٹھک آج بھی پوری شان وشوکت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔درمیان میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ بیٹھک کا ریکارڈ کچھ عرصہ تحریری طورپرمحفوظ نہ کیا جاسکالیکن جتنا بھی ریکارڈ تحریری طورپر محفوظ ہوا اس میں محمد علی رضوی اورقیصرعمران مگسی کی کاوشیں شامل حال رہیں۔ سوشل میڈیا کے متحرک ہونے کا فائدہ یہ ہوا کہ پھر تحریر کی ضرورت ہی نہ رہی اور تصویروں کی صورت میں یہ سارا ریکارڈ محفوظ ہوگیا۔
بیٹھک کے دس برسوں کو کتابی صورت میں منظرعام پر لانے کا خیال مسعود کاظمی صاحب کی کتاب” دبستان ملتان“ کی اشاعت کے بعد پیدا ہوا۔کاظمی صاحب نے رفتگاں کی زندگی کا احوال بہت عمدگی کے ساتھ اپنی کتاب میں محفوظ کردیا اور پھرہمیں بھی یہ تحریک ہوئی کہ جو لوگ اس بیٹھک کاحصہ رہے اورجونامور ہستیاں اب بھی ہمارے درمیان موجودہیں ان کی زندگیوں کا احوال بھی ان کی زندگی میں ہی محفوظ کردیا جائے اور یہ جی اس لیے چاہا کہ جب ہمارے درمیان سے ہماراکوئی دوست ، ہمارا کوئی مہربان یا کوئی بڑی شخصیت رخصت ہوتی ہے تو پھر ہم اس کے کوائف جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کسی سے تاریخ پیدائش معلوم کرتے ہیں، کسی سے یہ پوچھتے ہیں کہ اس نے میٹرک کب کیا، اس کی پہلی کتاب کب شائع ہوئی، نوکری کب شروع کی اورریٹائرکب ہوا؟ لیکن اگر یہ سب کچھ اس ہستی سے اس کی زندگی ہی میں پوچھ لیا جائے تو وہ زیادہ مستند بھی ہوگا ۔اسی لیے تو ہم نے کہا کہ ہمیں آج کی اہمیت کا آج ہی ادراک ہونا چاہیے۔
یہ بیٹھک کے پہلے سال کا احوال ہی نہیں ملتان کی ان تمام ہستیوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے ملتان کو ملتان بنایا اور ادبی بیٹھک کو ملتان کے ادبی منظرنامے کی پہچان بنایا۔ہماری کوشش تھی کہ پہلی کتاب میں کم وبیش 100قلم کاروں کی زندگیوں کا احوال محفوظ کرلیا جائے ۔ہم نے بہت سے تعارف باقاعدگی کے ساتھ فیس بک پر ادبی بیٹھک والے صفحے پر محفوظ بھی کیے لیکن جب اس کتاب کی اشاعت کامرحلہ آیا تو ضخامت میں اضافہ ہوگیا اوراسے 50 شخصیات تک محدود کرنا پڑگیا۔اس میں بھی اس بات کاخیال رکھا گیا کہ بیٹھک میں گزشتہ دس برس کے دوران شریک ہونے والے زیادہ سے زیادہ رفتگان کو اس کتاب کاحصہ بنادیا جائے ۔ایک اور مرحلہ ان دوستوں کے کوائف معلوم کرنا تھاجو2010ءمیں بہت باقاعدگی کے ساتھ ادبی بیٹھک میں شریک ہوئے اور بعد میں انہوں نے اپناراستہ الگ کرلیا۔ ان میں سے کچھ دوستوں کو توہم نے خودفون کیا اور جن کے رابطہ نمبراب ہمارے پاس نہیں تھے ان سے رابطے کی ذمہ داری سہیل عابدی کوسونپی گئی۔انکارتو کسی نے نہیں کیا سب نے وعدہ کیا کہ وہ اپنے کوائف ارسال کردیں گے تاکہ ہم ان کاتعارف بھی کتاب میں شامل کرسکیں لیکن عملی صورت یہ ہوئی کہ انہوں نے بعد ازاں اس کتاب کاحصہ بننے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔سو ہم ان کی مزیدکامیابیوں کے لیے دعاگوہیں۔
ادبی بیٹھک کی دسویں سالگرہ کے موقع پر شائع ہونے والی یہ کتاب دراصل ملتان کی ادبی تاریخ محفوظ کرنے کی ایک کوشش ہے ۔دس سال کاریکارڈ مرتب کرنا کوئی آسان کام نہیں لیکن پہلے سال(2010)کی یہ کتاب لا کر ہم نے ایک ایسے کام کا آغاز کیا ہے جو آنے والے برسوں میں بھی جاری رہے گا ۔ بیٹھک کے پہلے پانچ سال کے شرکاءاور اجلاسوں کا مکمل ریکارڈ تحریری صورت میں ہمارے پاس محفوظ ہے۔آنے والے برسوں میں سخن وران ملتان کی مزید جلدیں بھی شائع کی جائیں گی،2010 ءکے شرکاءمیں سے جن کے تعارف اس جلد میں شامل نہیں ہو سکے انہیں اگلی جلدوں میں شامل کر کے ہم اپنے حصے کا کام مکمل کرتے رہیں گے تاکہ مستقبل میں ملتان کی ادبی سرگرمیوں اور قلم کاروں کے بارے میں تحقیق کرنے والوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوں۔
دوستوں سے گزارش ہے کہ اگر انہوں نے 2010ءکے اجلاسوں میں شرکت کی اور ان کا تعارف اس مرتبہ کتاب کا حصہ نہیں بن سکا وہ ہمیں اپنے تعارف ارسال کردیں ۔جو دوستوں بعد کے برسوں میں اس بیٹھک کاحصہ بنے وہ بھی اپنے تعارف ارسال کرسکتے ہیں اورجنہوں نے ہماری گزارش اورخواہش کے باوجود ہمیں تعارف نہیں بھجوائے ان کے لیے ہماری پیشکش بدستور برقرارہے۔
رضی الدین رضی
یکم فروری2020