کمشنر گوجرانوالا کے کتے نے جس طرح شہرت حاصل کی سچ پوچھیں تو ہم اس سے بہت متاثر ہوئے ہیں ۔ یہ پہلا کتا ہے جس نے کمشنر صاحب بہادر سے زیادہ شہرت حاصل کی ہے ورنہ تو اس سے پہلے شہرت صرف کمشنروں کا مقدر ہوتی تھی ۔ اس کتے کا سوشل میڈیا پر جس طرح ذکر ہوا اس نے تو اس کتے کو بالکل ہی کتا بنا دیا ۔ہم نے جب فیس بک پر لکھا کہ کتا اگر کمشنر کا ہو تو پھر وہ کتا نہیں ہوتا تو ہمارے دوست اور معروف صحافی ضیغم خان نے گرہ لگائی کہ ” کمشنر کا کتا تو کتوں کا کمشنر ہوتا ہے“ کمشنر صاحب کے عملے نے جس طرح اس کتے کو ایک دو روز میں ڈھونڈ نکالا اور جس طرح بعد ازاں اس کتے کے ساتھ گروپ فوٹو بنوائے اس نے ہمیں اور بھی متاثر کیا ۔ ہماری بیورو کریسی عوام کے ساتھ سلوک تو خیر ویسا ہی کرتی ہے لیکن کاش کہ کبھی لوگوں کو اہمیت بھی ویسی ہی مل جائے جیسی اس کتے کو ملی ۔ لیکن یہ ممکن اس لیے نہیں کہ اس کے لیے اس کتے کی طرح کمشنر ہاؤس کا مکین ہونا ضروری ہے ۔
اس موضوع کو یہیں ختم کرتے ہیں اور اب عمومی کتوں کی با ت کرتے ہیں ۔ کہ ہمیں بھی اپنی پنڈلی عزیز ہے ۔
انسانوں کی طرح بعض کتے بھی ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں دنیا جہان کی کوئی مصروفیت نہیں ہوتی۔فارغ قسم کے کتے۔جیسے منہ میں سونے کی ہڈی لیکرپیداہوئے ہوں۔جس طرح بعض لوگوں کودن بھر چارپائیاں یا کرسیاں توڑنے اور غیبت کرنے کے سوا کوئی اورکام نہیں ہوتا بالکل اسی طرح ان کتوں کوبھی دن بھر دم سے زمین صاف کرنے،سڑکیں اور گلیاں ماپنے اور گاہے گاہے بھونکنے کے سوا کوئی اورمصروفیت نہیں ہوتی۔کوئی توجہ دے یا نہ دے وہ وقت بے وقت ”وف“ کرنے سے بازنہیں آتے۔کبھی محلے کے ایک کونے میں دم ہلاتے نظرآئیں گے تو کبھی دوسرے کونے میں۔فارغ لوگوں کا یہ کام ہوتاہے کہ وہ دن بھر مختلف محفلوں اوررات کوہوٹلوں یا تھڑوں پربیٹھےگپ لگاتے ہیں مگر یہ جو فارغ قسم کے کتے ہوتے ہیں ان کاالمیہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں محفلوں یا چائے خانوں میں تو کوئی گھسنے نہیں دیتا سو یہ ہوٹلوں اور چائے خانوں کے باہر منڈلاتے ہیں۔کوئی ساتھی کتااگر کہیں سے ہڈی چھین لائے تواس کی جانب لپکتے ہیں۔ہڈی حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔اگرکامیابی ہوجائے تو ٹھیک ورنہ شرمندہ ہونے کی بجائے بڑے اطمینان کے ساتھ دم ہلاتے ہوئے کسی اور ہڈی بردار کے انتظار میں ٹہلنے لگتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ میونسپل کارپوریشن والوں کا ایک کتارمار سکواڈ ہواکرتاتھا۔ہم بچپن میں دیکھتے تھے کہ ایک اہلکار بندوق گلے میں ڈال کر سائیکل پر گھومتا تھا۔جہاں کوئی آوارہ کتا نظرآتا اسے ٹھاہ کردیتا۔سو گلی محلوں میں پہلے ایک زوردار دھماکے اور پھرجانکنی کے عالم میں تڑپنے والے کسی کتے کی آواز سنائی دیتی تھی۔اب دھماکے کی آواز صرف کسی بارات کی آمد پر سنائی دیتی ہے۔مگراس کے بعد تڑپنے کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔اس زمانے میں آوارہ کتے کی پہچان یہ ہوتی تھی کہ اس کے گلے میں پٹہ نہیں ہوتا تھا اور بغیر پٹے والے کتے کو قابل دست اندازی کارپوریشن سمجھا جاتا تھا۔اب ایسا نہیں ہوتا ۔آوار ہ اور پالتوکتوں کی پہچان ختم ہوگئی اور کارپوریشن نے کتے مارمہم ہی ترک کردی۔نتیجہ یہ نکلاکہ ہر طرف فارغ قسم کے کتے بکثرت دکھائی دینے لگے ہیں۔
یوں توکتوں کی بہت سی قسمیں اور نسلیں ہیں مگر ایک قسم ایسی بھی ہے جوبے ضرر اور زمانے کی ستائی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔یہ آپ کو کہتی تو کچھ نہیں مگر زچ ضرورکرتی ہے۔آپ نے بارہا دیکھا ہوگا کہ آپ خراماں خراماں اپنے گھر کی جانب جارہے ہیں اوراچانک آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ ایک کتابھی آپ کے پیچھے چلاآرہاہے۔آپ گلی مڑتے ہیں کتا بھی آپ کے ساتھ گلی میں مڑ جاتا ہے۔آپ تھوڑا سا چوکس ہوتے ہیں کتا بھی ذرا سا چوکس ہوجاتا ہے۔آپ تھوڑا تیز چلتے ہیں۔اپنے اورکتے کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کتابھی رفتار تیز کردیتاہے۔اس دوران کتا آپ کے حواس پرطاری ہوجاتا ہے دوسری جانب کتا بھی اس قسم کی ذہنی کیفیت سے دوچارہوتا ہے۔آپ کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ اس کتے سے کیسے جان چھڑائیں۔شدید سردی میں بھی آپ کے اورکتے کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوجاتے ہیں۔آپ کچھ دیر کےلئے رک جاتے ہیں کہ کسی طرح کتا آگے نکل جائے ۔کتابھی رک جاتا ہے۔آپ ٹینشن دور کرنے کےلئے سگریٹ سلگاتے ہیں۔دھوئیں کے مرغولے فضا میں چھوڑتے ہیں۔سردی میں کتے کے منہ سے بھی بھاپ نکل رہی ہوتی ہے۔سگریٹ ختم کرکے آپ دوبارہ تیز تیزگھر کی جانب رو انہ ہوتے ہیں۔تیزی سے دوتین گلیاں تبدیل کرتے ہیں۔کچھ دیر بعد آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ کتے کوجل دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔آپ کو کافی دیر تک کتے کی چاپ سنائی نہیں دیتی۔آپ فاتحانہ انداز میں آگے بڑھتے رہتے ہیں۔5یا10منٹ گزرجاتے ہیں ” کتے نے جان چھوڑی ہے یانہیں“ یہ اطمینان کرنے کے لئے آپ مڑ کر دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ کتا بھی مڑ کرآپ کودیکھ رہاہے۔ساری خوش فہمی غارت ہوجاتی ہے ۔فتح کانشہ کافور ہوجاتا ہے۔ایک کتا آپ کوشکست دینے پر تلا ہوا نظرآتا ہے ۔آپ جھنجھلاہٹ میں کتے کوپتھر مارنے کےلئے لپکتے ہیں۔پھرآپ کو 14ٹیکے اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچے یادآجاتے ہیں۔اسی دوران گھر کادروازہ سامنے آجاتا ہے۔آپ تیزی سے دروازہ کھولتے ہیں اور ”کتا نہ ہوتو“،کہہ کر گھر میں داخل ہوجاتے ہیں۔آپ بھی سکھ کاسانس لیتے ہیں اور کتابھی۔آپ تو پسینہ پونچھ کر بستر میں جادبکتے ہیں اوروہ کتا۔وہ کتا بے چارہ”اب کسے رہنماکرے کوئی“ کہتا ہوا کسی اور راہگیر کی تلاش میں نکل جاتا ہے۔جیسے کمشنر صاحب کا کتا نکل گیا تھا ۔
فیس بک کمینٹ