چاہیے تو یہ تھا کہ ہم آج سیاست پر بات کرتے۔ ملک اس وقت جس صورتحال کا شکار ہے۔نوازشریف کو نااہل قراردیئے جانے کے بعد قائم مقام وزیراعظم کے طورپر شاہد خاقان عباسی حلف اٹھا چکے ہیں اور جب تک یہ کالم آپ کی نظروں سے گزرے گا کابینہ بھی حلف اٹھا چکی ہوگی۔جمعرات کی شام جب میں یہ کالم تحریر کررہا ہوں توایوان صدرمیں کابینہ کی حلف برداری کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں۔سابق وزیراعظم نوازشریف نے قائم مقام وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی مشاورت سے ایک کابینہ کی منظوری دے دی ہے اور شنید ہے کہ چھانگا مانگا سیاست کے نتیجے میں بعض اراکین اسمبلی وفاداریاں تبدیل کرکے اس کابینہ کا حصہ بن رہے ہیں۔ سنا ہے وفاداریاں اپنے ضمیر کی آواز پر تبدیل کی جارہی ہیں۔اراکین اسمبلی کے ضمیر کی آوازبھی خوب ہوتی ہے جوکبھی کسی دباﺅ کے نتیجے میں اورکبھی کسی چمک کے زیراثرسنائی دیتی ہے۔ایک کھیل خیبر پختونخواہ میں بھی جاری ہے جہاں پہلا پتھر عائشہ گلالئی نے پھینکا۔اوراس کا ارتعاش اتنا زیادہ تھا کہ گزشتہ تین روز سے میڈیا کے پاس عائشہ گلا لئی کے سواءکوئی موضوع ہی نہیں۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ خیبرپختونخواہ میں پرویز خٹک کے خلاف وفاداریاں تبدیل کرانے کی تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہوگئی ہیں اورعمران خان سے اس صوبے کی حکومت چھین لی جائے گی۔ان حالات میں سیاست پر لکھنے کے لیے بہت کچھ تھا لیکن جانے کیوں ہمارا جی نہ چاہا کہ اس موضوع پر بات کریں۔ سیاست پاکستان میں ہرروز کا موضوع ہے اوراس پر آنے والے دنوں میں بھی بہت کچھ لکھا جائے گا۔لیکن یہ اگست کامہینہ ہے۔قیام پاکستان کا مہینہ ہے۔سو اس ماہ کے دوران ہمیں کم ازکم سال میں ایک بار ہی صحیح اپنا احتساب ضرورکرنا چاہیے۔اور جب ہم اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں اوراپنا احتساب کرتے ہیںتو ایسی بہت سی باتیں بھی زبان پرآجاتی ہیں جوسننے والوں کو ناگوار گزرتی ہیں کہ سچ ہمیشہ بہت تلخ ہوتا ہے لیکن یہ سچ ہم اگر سال میں ایک بار بھی قبول کرلیں تو شاید احساس زیاں ختم ہوجائے اورشاید آنے والے برسوں میں ہم جو کچھ لکھیں وہ آج کے لکھے سے مختلف بھی ہو اور خوبصورت بھی۔
قارئین محترم قوموں کی زندگی میں ایک ایک سال کی بہت اہمیت ہوتی ہے، لیکن پاکستان کی تاریخ پرنظرڈالیں تومعلوم ہوتاہے کہ جیسے ہم نے آزادی کے 70برس رائیگانی میں ہی گزاردیئے۔70سال کم تونہیں ہوتے۔یہ کم وبیش سات عشروں کی کہانی ہے، ایک آزادملک نے کیسے خودکوآزاداورخودمختاربنانے کی کوشش کی اورکیسے وہ مختلف اندرونی وبیرونی سازشوں اورریشہ دوانیوںکاشکارہوا یہ ایک طویل کہانی ہے۔ سازشیں توپہلے روز ہی شروع ہوگئی تھیں، یہ 70سال مختلف المیوں سے عبارت ہیں۔ کئی سانحے ہیں جن پرہم نے آنسوبہائے، کئی دکھ ہیں کہ جنہیں ہم ہرسال یاد کرتے ہیں۔ عین عالم شباب میں یہ ملک دولخت ہوگیا۔ وہ جنہوںنے آزادی کے خواب دیکھے تھے، وہ جنہوںنے یہ سوچاتھاکہ زنجیریں ٹوٹ گئی ہیں، ان کے خواب پہلے روزہی چکناچورہوگئے۔آزادی حاصل کرنے والوں کو ابتدامیں ہی معلوم ہوگیاکہ یہ داغ داغ اجالا ہے اور یہ شب گزیدہ سحر ہے۔ وہ جان گئے تھے کہ منزل اُنہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے اور انہیں یہ ادراک بھی ہوگیا تھا کہ وہ ایک غلامی سے نجات حاصل کرنے کے بعد بہت سے آقاﺅں کے غلام ہوگئے ہیں۔ایک زنجیر ٹوٹی تواس کے بعد انہیں اوربہت سے زنجیروں میں جکڑدیاگیا۔
ریاستی اداروں نے ہمیں بہت سے بے تعبیرخواب دکھائے، ہرمرتبہ ہماراقبلہ درست کرنے کی کوشش کی گئی اورہمیں بتایاگیاکہ ہم آزادہیں، ہمیں بتایاگیاکہ ہم خودمختارہیں۔ان 70برسوں کے دوران جب بھی آزادی اورخودمختاری کانعرہ لگا اسی وقت ہماری آزادی بھی سلب ہوئی اورخودمختاری پربھی آنچ آئی۔ بہت سے خودساختہ ہیروتیارکئے گئے، قوم کو ذہنی طورپرمفلوج کرنے کےلئے ان ہیروزکی کہانیاں نصاب کاحصہ بنادی گئیں۔ بہت سے حملہ آوروں اورقاتلوں کو ہیرو بنا کر ہمارے سروں پرمسلط کردیاگیا۔موت کے سوداگر ہمارے ہیروبنے، لوٹ مارکرکے مال غنیمت اپنے اپنے ممالک کولے جانے والے بھی ہمارے ہیروقرارپائے اور عزتیں پامال کرنے والے کوبھی ہم نے اپنے ہیروز کی صف میں شامل کرلیا۔ کچھ حکمران ہم پرمسلط ہوئے یاکردیئے گئے، انہوںنے اپنی مرضی کے نظام بنائے اورپھرخودہی توڑدیئے۔حب الوطنی اورغداری کے معنی تبدیل ہوگئے۔بہت سے ایسے رہنماﺅںکوبھی غدار قرار دیدیا گیاجوقیام پاکستان کی جدوجہدمیں شریک تھے۔ اور بہت سے غداروں کو قومی پرچموں میں لپیٹ کر پورے اعزازکے ساتھ دفن کیاگیا۔ کبھی سول اورکبھی فوجی ڈکٹیٹرہمارے آقا بنے۔ سب اپنے اپنے اقتدار کو طول دینے کےلئے اس ملک کے مقدر اوراس ملک کے مستقبل سے کھیلتے رہے۔ وہ لوگ جوآزادی،امن اور خوشحالی کے خواب آنکھوںمیں سجائے یہاں آئے تھے مایوسی کاشکارہوگئے۔ ناانصافی،بے روزگاری اورغربت اس قوم کامقدرٹھہری۔ غریب غریب تر ہوتا گیا اور سرمایہ چندخاندانوں کی مٹھی میں آگیا۔عالمی قوتوں نے پہلے روزسے ہی اس ملک کو تختہ مشق بنایا، بہت سی جنگیں ہم پرمسلط کردی گئیںاورکچھ لڑائیوںمیں ہم خودفریق بن گئے۔ نظریاتی سرحدوں کے دفاع کے نام پرمسلح جتھے تشکیل دیئے گئے تو مختلف عالمی قوتوںنے اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ان جتھوں کی پشت پناہی شروع کردی اورپھریوں ہوا کہ وہی جتھے ہماری جان کوآگئے۔آج کہنے کوہم آزادہیں، کہنے کوہم خود مختار ہیں لیکن ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ہم کس قدرآزادہیں اورکتنے خودمختارہیں۔عوام کوانصاف اورتحفظ فراہم کرنے والے اداروں کواس تمام عرصے میں سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا۔طویل آمریتوں کے دوران جمہوریت کے چند وقفے ضرورآئے لیکن اس دوران بھی حکومت اصل حکمران ہی کرتے رہے۔سول حکومتوں کو نہ معاشی پالیسی بنانے کااختیارتھانہ خارجہ امورطے کرنے کی اجازت۔ اس دوران اگرکسی نے آنکھ اٹھاکربات کرنے کی کوشش بھی کی تواسے ہی نہیں اس کے خاندان کوبھی عبرت کی مثال بنادیاگیا۔آج کہنے کوہم جمہوریت میں سانس لے رہے ہیں، آج کہنے کو عوام کے منتخب نمائندے حکمران ہیں لیکن چیزوں کوسمجھنے والے بخوبی سمجھتے ہیں کہ اصل حاکم کون ہے؟ نظریہ ضرورت کے تحت ایسے ایسے فیصلے دیئے گئے کہ عقل دنگ رہ گئی،ہرآمرنے اپنی غلط کاریوں کوتحفظ دینے کیلئے عدالتوں کا سہارالیا۔آج ہم ایک ایسے نظام میں سانس لے رہے ہیں جہاںجمہوریت بھی ہے اور فوجی عدالتیں بھی کام کررہی ہیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے باوجود دہشت گرد ہمیں نشانہ بنارہے ہیں۔مقننہ خود عدم تحفظ کاشکارہے۔ بوٹوں کی دھمک اب شاہراہِ جمہوریت پرنہیں بلکہ خود پارلیمنٹ اورسپریم کورٹ میں بھی سنائی دیتی ہے اوراس مرتبہ ٹرپل ون بریگیڈکی بھی ضرورت پیش نہیں آئیسوہمارے لئے یہی بہت ہے کہ ہم غلام اپنا جشن آزادی ہرسال کی طرح اس مرتبہ بھی پورے جوش وخروش کے ساتھ منائیں گے۔اورپوری دنیا کوبتائیں گے کہ ہم زندہ قوم ہیں لیکن کبھی اپنے گریبان میں جھانکیں گے توہمیں معلوم ہوگا کہ در حقیقت ہم شرمندہ قوم ہیں۔شرمندہ ہیں ہم اپنے آباءسے، شرمندہ ہیں قیام پاکستان کاخواب دیکھنے والوں سے، شرمندہ ہیں قیام پاکستان کے لئے جانوں کے نذرانے پیش کرنے والوں سے، شرمندہ ہیں جمہوریت کے خواب دیکھنے والوں سے، شرمندہ ہیں کوڑے کھانے والوں سے ا ورشرمندہ ہیں اپناآج ہمارے کل پرقربان کردینے والوں سے۔
فیس بک کمینٹ