ڈاکٹر طاہر جمیل کا تعلق اگرچہ ملتان سے نہیں ہے لیکن وہ ملتان سے عشق بہت سے نام نہاد عاشقانِ ملتان سے بے حد زیادہ کرتے ہیں۔ ملتان سے عشق کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ ان کی لائبریری میں تاریخ ملتان پر لکھی گئی ہر زبان کی کتاب موجود ہے۔ ملتان کی تاریخ پر لکھی گئی پہلی کتاب ”تواریخ ضلع ملتان“ مطبوعہ 1884ءکا پہلا نسخہ بھی ان کی لائبریری کا حصہ ہے۔ یہ کتاب منشی حکم چند (ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر بندوبست ملتان) نے تحریر کی۔ منشی حکم چند نے محکمہ مال میں بحیثیت نائب تحصیلدار کے نوکری کا آغاز کیا۔ اپنی ملازمت کے دوران انہوں نے ملتان کو جس محبت و عقیدت کی نگاہ سے دیکھا اس کو تاریخ کا حصہ بنا دیا۔ یہ کتاب تقریباً 126 برس تک نایاب رہی تو بزمِ ثقافت ملتان نے جب اسے دوبارہ شائع کرنا چاہا تو معلوم ہوا کہ بزمِ ثقافت کی قدیمی لائبریری ”دی پبلک لائبریری باغ لانگے خان ملتان“ میں بھی اس کا نسخہ¿ اوّل مکمل نہیں ہے تو بزمِ ثقافت کے صدر ڈاکٹر عاشق خان درانی نے دوسری اشاعت کے لیے ڈاکٹر طاہر جمیل کی لائبریری سے مدد لی۔ یوں ملتان کی تاریخ پر لکھی ہوئی پہلی کتاب جب دوسری مرتبہ جولائی 2010ءمیں منظرِ عام پر آئی تو اس اشاعت میں ڈاکٹر طاہر جمیل کی لائبریری نے خوب امداد کی۔ ان کی لائبریری جنوبی پنجاب میں کسی نعمت سے کم نہیں۔ ڈاکٹر طاہر جمیل شاعری اور فکشن سے بہت دور بھاگتے ہیں اس لیے لائبریری میں تاریخ ملتان و پاکستان، اسلامک ہسٹری کی وہ کتب موجود ہیں جو عام طور کہیں دستیاب نہیں ہوتیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک عرصہ تک نشتر ہسپتال کے امراضِ قلب وارڈ میں کام کیا لیکن پرائیویٹ کلینک کا منہ نہیں دیکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر مَیں پرائیویٹ کلینک کرتا تو کتابوں کو کون وقت دیتا۔ یعنی ڈاکٹر صاحب نے دنیا والوں کی نظر میں دو طرفہ خسارے کا سودا کیا۔ پہلا یہ کہ انہوں نے کلینک نہیں بنایا دوسرا لائبریری کی صورت میں ایک ایسا شوق پالا جو پاکستان کی سطح پر انتہائی مہنگا شوق ہے۔ خوش قسمتی سے انہیں شریکِ حیات بھی ایسی ملی جو میک اَپ اور کپڑوں کی بجائے ان کی کتابوں سے عشق کرنے لگی۔ پہلے ملتان کے مقامی کالج میں پڑھاتی تھیں۔ پھر انہیں مزید پڑھنے کا جی چرایا تو بہا¶ الدین زکریا یونیورسٹی میں تبادلہ کروا لیا۔ بچوں کو پڑھاتے ہوئے انہوں نے پی۔ایچ۔ڈی کا سوچا کہ اچانک معلوم ہوا کہ انہیں کینسر جیسی مہلک بیماری لاحق ہو گئی ہے۔ ہمت نہیں ہاری علاج کے لیے جہاں جانا پڑتا ڈاکٹر طاہر جمیل اپنی اہلیہ پروفیسر خدیجہ ناہید کو فوراً وہاں لے جاتے۔ لاہور میں نامور معالج ڈاکٹر منور حیات مرحوم و مغفور کے زیرِ علاج بھی رہیں۔ شوکت خانم سے لے کر ملتان کے ہر ہسپتال میں خدیجہ ناہید کو لے کر ڈاکٹر طاہر جمیل جاتے رہے۔ کبھی ڈاکٹر طاہر جمیل کے گھر میں ان کی اہلیہ کی صحت بہتر ہوتی تو وہ کتابوں میں واپس لوٹ جاتے اور جب معلوم ہوتا کہ ادویات بے اثر ہو رہی ہیں تو وہ سب کچھ چھوڑ کر اپنی اہلیہ خدیجہ ناہید کی تیمارداری میں مصروف ہو جاتے۔ صبح و شام کے اس کھیل میں ایک دن خدیجہ ناہید زندگی کی بازی ہار گئیں اور ملتان کے ہزاروں اہلِ علم نے شہر کی نامور ماہر تعلیم کو نم آنکھوں سے رخصت کیا۔
خدیجہ ناہید کی بے وقت موت نے ڈاکٹر طاہر جمیل کو توڑ کے رکھ دیا۔ وہ طاہر جمیل جو ہسپتال کی ڈیوٹی کر کے سودا سلف لانے کے بہانے شہر کے کتب خانوں میں گھنٹوں گزارا کرتے تھے اب گھر میں قید ہو کر رہ گئے۔ ہسپتال سے واپسی پر اب ان کا زیادہ وقت اپنی لائبریری میں گزرنے لگا۔ ایک طرف ان کا اپنا شوق (یعنی تاریخ ملتان و جنوبی پنجاب کے ہر شہر کے بارے میں کتب جمع کر کے ان کا مطالعہ کرنا) اور دوسری طرف اپنی مرحومہ اہلیہ کی پی ایچ ڈی کے لیے جمع کردہ کتب کی حفاظت کرنا۔ ایک دن لائبریری میں اپنی اہلیہ کی کتابوں کو دیکھ رہے تھے کہ ذہن میں خیال آیا کہ ان کی اہلیہ یونیورسٹی کے جس شعبہ میں پڑھاتی تھیں کیوں نہ ان کی کتب کو اس شعبہ کے حوالے کیا جائے۔ ابتدائی منصوبہ سوچا، پورے ملک کے کتب خانوں اور سرکاری اداروں سے پانچ لاکھ روپے سے زائد کی کتب خرید کیں اور زکریا یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر طاہر امین، پروفیسر ڈاکٹر عذرا، پروفیسر ڈاکٹر جاوید سلیانہ سے رابطہ کیا۔ انہیں بتایا کہ وہ اپنی مرحومہ اہلیہ کے شعبہ مطالعہ پاکستان میں ان کے نام سے ایک لائبریری بنانا چاہتے ہیں۔ تینوں حضرات نے ڈاکٹر طاہر جمیل کی تجویز کو سراہا اور آخرکار 20 جولائی 2017ءکو بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ پاک سٹڈیز میں خدیجہ ناہید لائبریری کا افتتاح کر دیا گیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر جمیعل نے کہا کہ یہ کتابیں میرے لیے سب سے قیمتی اثاثہ تھیں جو آج مَیں نے یونیورسٹی کو عطیہ کر دی ہیں۔ مَیں گاہے گاہے اس لائبریری میں نئی کتابوں کا اضافہ بھی کرتا رہوں گا یہ لائبریری اَپ ڈیٹ رہے۔ وائس چانسلر بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ڈاکٹر طاہر امین نے اس موقع پر شاندار تقریر کرتے ہوئے کہا اگر میری یونیورسٹی کے اساتذہ ایک دوسرے کے خلاف درخواست بازی اور مقدمہ بازی کرنے کی بجائے کتابوں کے مطالعہ کو زیادہ وقت دیں تو یہ یونیورسٹی دنوں میں اپنا کھویا ہوا وقار واپس حاصل کر لے گی۔ ڈاکٹر طاہر امین نے تقریب میں بڑی ”صادق و امین“ باتیں کیں۔ انہوں نے اپنے ہم نام ڈاکٹر طاہر کے جذبے کو سراہا کہ انہوں نے نایاب کتب یونیورسٹی کو عطیہ کیں۔
تقریب سے واپسی پر یونیورسٹی کے خزانہ دار ڈاکٹر عمر فاروق کے پاس چائے پیتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ڈاکٹر طاہر جمیل اور ڈاکٹر طاہر امین نے 20 جولائی 2017ءکا دن شاندار بنا دیا۔ ورنہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ڈاکٹر طاہر جمیل اپنی نایاب کتب کو دگنی قیمت پر شوقین کو فروخت کر سکتے تھے اور ڈاکٹر طاہر امین وہی وقت کسی ایسی تقریب کو دے سکتے تھے جہاں صرف چاپلوسی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہونا تھا۔ آخر میں اپنے قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ 1947ءسے لے کر 2017ءتک تاریخ پاکستان کے متعلق اگر کسی کو اُردو، انگریزی کتاب کی تلاش ہے تو وہ بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ پاک سٹڈیز کی خدیجہ ناہید لائبریری سے استفادہ کر سکتا ہے۔
فیس بک کمینٹ