یہ 2000ءکی بات ہے۔ملتان سے روزنامہ ”نیا دن“ کاکچھ عرصہ قبل ہی آغاز ہواتھا۔ایک نیا اخبار۔ایک نیا تجربہ۔عارف معین بلے اخبار کے مدیر تھے۔جوروزنامہ نوائے وقت کو خیرباد کہہ کر یہاں آ ئے تھے۔مختلف اخبارات سے رپورٹرز،سب ایڈیٹرز کی ٹیم چنی گئی۔اور بہت سے ایسے نوجوان جو ابھی صحافت کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کروارہے تھے اس ٹیم کاحصہ بن گئے۔نوائے وقت اورخبریں کاشمارملتان کے مقبول ترین اخبارات میںہوتاتھا جن کے پاس وسائل بھی زیادہ تھے اور کام کرنے والے سینئر رپورٹرزاور سب ایڈیٹرز کی تعداد بھی نیا دن کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔ان دو اخبارات کے مقابلے میں نیا دن کی بقاءاسی میں تھی کہ وہ ایسی خبریں دیتا جو کسی اور اخبارکے پاس نہ ہوں۔سو اس کے لیے ہمارے نوجوان صحافیوں نے کام شر وع کردیا۔غالباً عید کاموقع تھا اور صبح دس بجے کاوقت۔ اخبار کے دفتر میں یہ وقت چہل پہل کانہیںہوتا۔اخبارچونکہ نیاتھا اورجنون بھی عروج پرتھا۔سو میں اصغر زیدی کے ہمراہ صبح دس بجے دفتر میں موجودتھا۔عارف معین بلے کے بعد اصغر زیدی نیوزایڈیٹر کے طورپراس اخبارسے منسلک ہوگئے تھے اور میگزین کے لئے انہوںنے ہی مجھے نوائے وقت سے مستعفی ہوکر نیا دن میں آنے پر قائل کیاتھا۔ہمارے کرائم رپورٹر اقبال شیخ نے اس روزصبح صبح آکر ہمارے کان میں بتایا کہ زہریلی شراب پینے سے ملتان میں تین لڑکے ہلاک ہوگئے ہیں ۔میں ابتدائی خبرابھی دے رہا ہوں اور یہ میری خصوصی خبر ہے۔کسی اور اخبار میں نہیں ہوگی۔بے دھڑک ہو کر میرے نام سے شائع کردیں۔ہم نے خبر رکھ لی کہ ابھی تو ادارتی صفحات اور میگزین کے کام کاوقت تھا۔اقبال شیخ واپس چلے گئے۔تین بجے وہ دوبارہ آئے کہنے لگے” مرنے والوں کی تعداد 10ہوگئی ہے۔خبر صرف میرے پاس ہے اور یہ بائی لائن ہی جائے گی“۔
”خدا کا نام لو یار ،10افراد زہریلی شراب سے مر گئے۔کیا باقی اخبارات کے رپورٹر اندھے ہیں جنہیں اب تک اس کی خبرنہیں ہوئی۔اگر دیگر اخبارات میں بھی یہ خبر شائع ہوگئی اور ہم نے تمہارے نام سے اسے خصوصی خبر قراردے کر چھاپ دیا تو مذاق بن جائے گا“۔
”سر ،بے فکر ہوجائیں ،یہ خبر کسی اور کے پاس نہیں ہے۔
ہمیں اقبال شیخ کی بات کا یقین نہ آیا۔اصغر زیدی کے ساتھ مشاورت کی تو وہ کہنے لگے ،رپورٹروں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے نمبر بنارہے ہوتے ہیں۔یہ خبر شاید سبھی کے پاس ہوگی۔اتنی زیادہ تعداد میں ہلاکتیں ہوجائیں اور باقی اخبارات لاعلم رہےں۔یہ ممکن نہیں۔رات کے دس بجے تک مرنے والوں کی تعداد 20ہوچکی تھی(جوبعدازاں اگلے دوروز میں 31تک پہنچ گئی تھی)۔مگر اقبال شیخ کااصرارتھا کہ یہ اب بھی میری خصوصی خبر ہے۔آپ بے دھڑک ہوکر اسے شائع کریں۔ہمیں کشفی ملتانی کا شعر یاد آگیا۔
رند بخشے گئے قیامت میں
شیخ کہتا رہا حساب حساب
یہ شعر سنایا تو اصغر زیدی نے مسکرا کرپوچھاتم کہنا کیاچاہتے ہو۔
”کہنا کیا ہے بھائی ۔رند تو بخشے جائیں گے لیکن یہ شیخ اس خبر کے ذریعے ہمارا مذاق ضرور بنوائے گا۔“
لیکن اگلے روز جب خبرشائع ہوئی تو حیرت کی انتہا نہ رہی واقعی یہ نیا دن کی خصوصی خبر تھی۔خبریں اور نوائے وقت سمیت تمام سرکردہ اخبارات کو مسنگ کاسامنا کرناپڑا۔چینلز کا وہ زمانہ نہیں تھا کہ کوئی خبر بریکنگ قرارپاتی۔بعد میں اقبال شیخ نے ہمیں بتایا کہ اسے اتفاقاً اپنے تین محلے داروں کی موت کی خبر ملی اورپھر جب اس نے کھوج لگانا شروع کیا تو ہلاکتیں بڑھتی چلی گئیں۔خبر اس لیے اخبارات سے پوشیدہ رہ گئی کہ زہریلی شراب کامعاملہ اہل خانہ عموماً دبا دیتے ہیں۔اگر کسی کو طبی امداد بھی دی گئی تو قریبی ڈاکٹر سے رابطہ کرلیاگیا ۔وگرنہ بیشتر لوگ کچھ ہی دیر بعد اپنے اپنے گھروں میں جاکر موت کا شکارہوگئے تھے۔نیا دن کی اس بڑی خبر نے تہلکہ مچادیا ۔اخبارات میں رپورٹروں کی جواب طلبیاں ہوئیں اور پھراقبال شیخ کے ساتھیوں نے ہی اس کے بارے میں ایک لطیفہ گھڑ دیا۔بلکہ لطیفہ تو یہ بعد میں بنا ۔ابتدائی طورپر تو یہ کسی کرائم رپورٹرکاعذر تھاجواس نے اس خبر کے حوالے سے جواب طلبی پر ایڈیٹر کو پیش کیا۔اس رپورٹر کاکہناتھا کہ جناب بات یہ ہے کہ یہ خبر ہمیں مل ہی نہیں سکتی تھی ۔اقبال شیخ نے تو مرنے والوں کے ساتھ پینے پلانے کا اہتمام کررکھا تھا۔خودوہ کھانا لینے گیا اور بعد میں اس کے دوستوں نے اس کے آنے سے پہلے ہی ماحول بنادیا۔اگر اقبال شیخ کھانا لینے نہ جاتا تو آج تعداد 31کی بجائے 32ہوتی۔
فیس بک کمینٹ