اس مضمون کو لکھنے کا محرک وہ بلوچ اور پنجابی ہیں جو کہتے ہیں سرائیکی قوم نہیں ہے بلکہ زبان ہے پنجابی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ سرائیکی زبان ہی نہیں ہے چلیں جناب قصہ ختم باقی اللہ اللہ خیر صلا ۔ میں عرصہ دراز سے ریاض سعودی عرب میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہوں ۔ مجھے عربی زبان اور یہاں کے رسم و رواج کے بارے میں بخوبی علم ہے ۔ عرب مہذب خطہ ہے اس کی اپنی روایت اور رسم و رواج ہیں ۔ میں پہلے عربی لسان کے بارے میں بتاتا چلوں ۔ عربی سامی السان گروپ سے تعلق رکھتی ہے ۔ سامی السان میں دراوڑی ، ملتانی آوازیں شامل نہیں ہیں عرب اور فارس والے ملتانی آوازیں نکالنے سے قاصر ہیں ۔ مشرق کی زبانیں مختلف لسانی گروپس میں منقسم دکھائی دیتی ہیں
جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے عربی سامی السان گروپ سے تعلق رکھتی ہے اب ہميں ديکھنا ہو گا کہ عرب اور فارس کس طرح نسلی ثقافتی تہذیبی گروہ ہيں ؟ عرب اپنا تعلق کس گروہ سے بتلاتے ہيں عرب اور فارس نسلاً بھی ہیں اس کے ساتھ قومیتی ، تہذیبی ، ثقافتی گروہ سے تعلق بھی رکھتے ہیں کیونکہ ہر لسانی ، ثقافتی ، تہذیبی گروہ نسلی گروہ ہوتا ہے . عرب خود کو سامی السان کہنا زيادہ پسند کرتے ہيں عربي زبان کے مطالعہ سے يہ بات ثابت شدہ ہے عرب خطہ کے لوگ ” ٻ، ، ٹ ، چ ،ڄ ، ڈ ، ݙ ، ڑ ، ژ ، گ، ڳ ، ݨ ” کی صوتی آوازيں نکالنے سے قاصر ہيں ان حروف میں ملتانی آوازیں بھی شامل ہیں اس کا صاف مطلب ہے عرب قبائل ميں ان حروف سے شروع ہونے والی ذاتيں بھی نہيں ہوں گی یا ایسی ذاتیں قومیتی گروہ نہیں ہوں گے جو ایسے حروف سے شروع ہوتے ہوں یا جن قومیتوں میں ایسے حروف آتے ہوں ، عرب لسان کے علاقے ميں ايسی قوميں يا قبائل آباد نہیں ہوں گے جو سرائیکی ، سندھی ، بروہی يا مجموعی طور پر دراوڑی صوتی آوازيں نکال سکيں . کيونکہ ان ميں دراوڑی اور ملتانی صوتی آوازيں نکالنے کي صلاحيت نہيں ہے
.
لسان ، ثقافت ، اور جغرافيے کو سمجھنے کيلئے ہم اس پورے خطے کو تين حصوں ميں تقسيم کر ديتے ہيں تاکہ سمجھنے اور سمجھانے میں آسانی رہے . ہم عربوں کو ان کی پسند کے مطابق سامی السان کہہ ديتے ہيں سامی النسل کا مطلب غیر یہودی ہے ۔ سامی النسل کا انتخاب عربوں نے خود کيا ہے حالانکہ عبرانی لسان کا تعلق بھی سامی السان میں ہوتا ہے جو کہ ایک یہودی النسل گروہ ہے . دوسرے حصے ميں ہم ايران يا فارس کو رکھتے ہيں . تيسرے حصے میں ملتان کی آوازوں یعنی موجودہ يا ماضی کے ملتان کو رکھتے ہيں آپ ملتان کو سپت سندھو کہہ ليں يا ملتان کہہ ديں بات ايک ہی ہے ۔ جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ہے عربی ، ملتانی آوازیں نکالنے سے قاصر ہیں ہمارا فوکس ملتان کی آوازیں ہیں ۔
اس بحث کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے ہمیں سب سے پہلے عرب خطے اور عربی لسان کو سمجھنا ہو گا جيسا کہ ميں اوپر واضح کر چکا ہوں کہ. لسان کے لحاظ سے عربی ايک مفصل زبان ہے . عربی کے اندر ” ٻ ، ٹ ، چ ،ڄ ، ڈ ، ݙ ، ڑ ، ژ ، گ، ڳ ، ݨ "کی مخصوص صوتی آوازيں نہيں ہيں يہاں پر جو نقشہ بنتا ہے اگر عرب خطہ سے کوئی گروہ یا فرقہ ہمارے خطہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ ہمارے رسم و رواج ، لسان سے کلی طور پر مختلف ہو گا سو داخل ہونے والا قبيلہ يا فرد واحد يا کوئی گروہ یہ آوازیں نکالنے سے قاصر ہو گا اور وہ مخصوص عربی آوازيں يا لفظ بولتا ہو گا اور ايسی ذاتوں ، قومیتوں پر مشتمل ہو گا جن ميں مذکورہ صوتی آوازيں نہيں ہوں گی کيونکہ عربی کے اندر يہ آوازيں نہيں ہيں. يہاں پر يہ سوال بڑا اہم ہے کہ بلوچ محقق اور تاريخ دان دعویٰ کرتے ہيں بلکہ واشگاف الفاظ ميں دليليں ديتے نہیں تھکتے کہ بلوچوں کے نسلی ، ثقافتی ، تہذیبی رشتے حلب سے ہیں اور وہ حلب سے آئے ہيں حلب تو عربی اللسان کا علاقہ ہے ۔ کچھ بلوچ لکھاری یہ متضاد دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ وہ کرد النسل ہیں کچھ بلوچ لکھاری اپنا تعلق فارسی النسل گروہ سے بھی جوڑتے ہیں ان بلوچ لکھاریوں کی تحریروں میں جا بجا ابہام پھیلا ہوا ہے مغالطے پیدا کئے گئے ہیں بلوچ بذات خود دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ نسلی گروہ ہیں لیکن عرب اور فارس نسلی سے زیادہ قومیتی ، ثقافتی ، تہذیبی اور جغرافیائی گروہ ہیں جیسا کہ سرائیکی ، اور سندھی لسانی ، قومیتی ، تہذیبی ، ثقافتی ، ڄغرافیائی گروہ ہیں ۔
فیس بک کمینٹ