نئے سال کے مشاعروں کی روایت ملتان میں عمر علی خان بلوچ صاحب نے قائم کی تھی ۔ اور ایک پرانے کالم سے معلوم ہوا کہ اس سلسلے کا پہلا مشاعرہ 1991 ء میں پاکستان نیشنل سنٹر میں ہوا تھا ۔ کل نئے سال کے آغاز کے موقع پر پہلی بار یہ مشاعرہ عمر علی خان کی غیر موجودگی میںہو گا ۔ ان کی صاحب زادی عنبرین عمر اپنے والد کی اس روایت کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ کالم پڑھیں اور عمر علی خان سمیت ان تمام ہستیوں کو یاد کریں جو اُس پہلے مشاعرے میں موجود تھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچ سات برس پہلے کی بات ہے ڈاکٹر بیدل حیدری ہر سال کے اختتام پر 31 دسمبر کی شام کبیروالا میں محفل مشاعرہ کا اہتمام کیا کرتے تھے۔اس مشاعرے کی خوبی یہ ہوتی تھی کہ اس میں شریک شعراء ایک دوسرے کی غزلیں بھی سنتے تھے اور سال کے آخری سورج کے غروب ہونے کا منظربھی دیکھتے تھے۔ہم نے ایسی کسی تقریب میں شرکت تو نہیں کی لیکن اس کی روداد مختلف دوستوں کی زبانی بارہا سنی۔ گزشتہ دو تین برسوں سے ملتان میں نئے سال کے آغاز پر سال کی پہلی ادبی تقریب منعقد کرانے کا رجحان شروع ہوا۔ہر سال کسی نہ کسی تنظیم کے زیراہتمام سال کی پہلی تقریب یکم جنوری کو منعقد ہوتی ہے۔اس مرتبہ یہ کام یوتھ لیگ اور پاکستان نیشنل سنٹر نے مشترکہ طور پر سرانجام دیا۔یوتھ لیگ کا نام سنتے ہی ممکن ہے کچھ لوگوں کو ثریا شہاب یاد آتی ہوں لیکن ہمیں یوتھ لیگ عمر علی خان بلوچ کے حوالے سے یاد ہے ۔اور عمر بلوچ کو تلاش کرنے کا یار لوگوں نے آج کل ایک ہی ’’گُر‘‘یاد رکھا ہوا ہے ۔’’گُر ‘‘ یہ ہے کہ آپ کو شہر میں انسداد منشیات کے محکمہ کی سبز رنگ والی جیپ جہاں بھی نظر آجائے تو اس کے آس پاس یا پھر جیپ میں ہی عمرعلی خان بلوچ موجود ہوں گے۔اب آپ سوچیں گے کہ انسداد منشیات اور ادب کا آپس میں کیا تعلق ہے؟یعنی عمربلوچ اگر انسداد منشیات کے لئے کام کرتے ہیں تو پھر مشاعرے کیوں کراتے ہیں؟اس سلسلے میں ہماری گزارش یہ ہے کہ “انسداد“ عمر علی خان بلوچ کا شیوہ ہے۔وہ ملتان سے سرائیکی ادب کے نام سے ایک ماہانہ رسالہ بھی تو شائع کرتے ہیں۔رہا مسئلہ انسداد منشیات کا تو یہ ان کاسائیڈبزنس سمجھیں۔بہرحال یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا ورنہ بلوچ صاحب بہت محبت کرنے والے آدمی ہیں۔اتنے مخلص ہیں کہ ہردور میں وزیر مشیر ان کے آگے پیچھے پھرتے نظرآتے ہیں۔سال نو کے مشاعرے میں شرکت کا دعوت نامہ نسیم شاہدکی طرف سے موصول ہوا تھا۔تقریب کی صدارت محسن حیات اثر نے کی۔مہمان خصوصی ارشد ملتانی تھے اور نظامت کے فرائض خود نسیم شاہد نے انجام دیئے۔نسیم شاہد نے حسب روایت سب سے پہلے اپنی غزل سنائی۔خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ہم نے نسیم شاہد سے ان کی غزل کوئی سات آٹھ سال بعد سنی۔ آخری مرتبہ ہم نے ان کی غزلیں اس وقت سنی تھیں جب موصوف نے اپناپہلا اوراب تک کا آخری شعری مجموعہ ’’آئینوں کے شہر میں پہلا پتھر‘‘ کے نام سے شائع کرایا تھا۔پھر یہ افواہ پھیلی کہ کتاب چھپوانے کے بعد نسیم شاہد نے شاعری ترک کر دی ہے۔ایک آدھ جگہ تو انہوں نے کتاب میں شامل غزلوں کو بھی بچپن کی غلطی قراردیا۔بہرحال نئے سال کی پہلی محفل مشاعرہ میں ان کا کلام سن کرخوشی ہوئی کہ اب شاعری کی طرف ان کی واپسی ہورہی ہے۔مشاعرے میں طاہرسلیم، شفیق آصف، کوثر ثمرین، سرورنغمی، عباس ملک، وسیم ممتاز، انور سعید انور، فرحت عباس، اقبال ارشد، ذکیہ نسیم، انورجمال، محمد امین، طاہرتونسوی، شیدا حسن زیدی، رشید قیصرانی اوربہت سے دوسرے شعراء نے کلام سنایا۔یہ مشاعرہ رات آٹھ بجے تک جاری رہا۔تقریب اگرچہ چاربجے شروع ہوناتھی لیکن اسی روز شہر میں ایک اورتقریب بھی تھی ۔خواتین کی ادبی تنظیم ’’حریم فن‘‘کااجلاس ہرماہ کی پہلی تاریخ کو منعقد ہوتا ہے سو کچھ ادیب اورشاعر وہاں چلے گئے تھے ۔خواتین کی اس تنظیم کے روح رواں محترمہ ثمر بانو ہاشمی کی وجہ سے عاصی کرنالی ہیں ۔ان کی جانب سے دعوت نامہ ہمیں بھی موصول ہوا تھا لیکن افسوس کہ ہم اس محفل میں شریک نہ ہوسکے ۔ایسی تقریبات میں شاکرحسین شاکر بہت اہتمام سے شرکت کرتے ہیں۔خدا معلوم وہ بھی وہاں جاسکے یا نہیں۔
روزنامہ امروز ، 24 جنوری 1991ء