اپنے بارے میں یہ اعتراف کرتے ہوئے مجھے جھجھک محسوس ہو رہی ہے کہ میں ابھی تک یہ طے نہیں کرپایا کہ مجھے کیا لکھنا چاہیے۔ میں اپنے اس مضمون کا آغاز کسی چونکا دینے والے جملے سے کرنا چاہتا تھا مگر لوگ کچھ اتنے چوکنے ہو چکے ہیں کہ اب وہ جملے کی ساخت سے زیادہ اس کے مفہوم پر توجہ دینے لگے ہیں اور میں فی زمانہ مفہوم سے عاری گفتگو کرنے کا عادی ہوں اس لئے باوجود کوشش کے بین السطور میں کوئی خاص بات پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ چاہتا ہوں کہ تفہیم کاسارا بوجھ مفسرین پر ڈال دوں کیونکہ وہ عام طورپر عوام کی بھلائی کے لئے ایسے نکتے تلاش کر لیتے ہیں جن کا افسانہ نگار کے ذہن میں شائبہ تک موجود نہیں ہوتا ۔
لیکن یہاں ذرا سا خطرہ بھی ہے کہ مفسرین وضاحت کے زعم میں کچھ ایسی باتیں بھی کر سکتے ہیں جن سے میرے اور قارئین کے درمیان کھنچاؤ کی فضا پیدا ہوجائے اور ہمارے تعلقات پہلے سے زیادہ کشیدہ ہوجائیں۔ ویسے تو مضمون لکھنا کوئی اتنا مشکل بھی نہیں اور اگر آپ کے مراسم کسی مدیر سے ہیں تو اسے چھپوایا بھی جا سکتا ہے اور مضمون کا آغاز کچھ اس انداز سے کیا جا سکتا ہے کہ ہمارا ”تمہارا خدا بادشاہ خدا کا بنایا رسول بادشاہ۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بادشاہ تھا وہ نیک اور منصف مزاج تھا اس کی رعایا خوشحال تھی ، اور اس کی سلطنت میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پرپانی پیتے تھے کہ وہ اگر ایسا نہ کرتے توانہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا ۔ خصوصاً بکریوں کے ساتھ یہ سلوک بڑی فیاضی سے ہوتا۔ بادشاہ کا نام اکبر تھا۔ وہ صبح سویرے دریچے میں آکھڑا ہوتا اور شہر کے لوگوں سے سلامی وصول کرتا یہ بتانے کے لئے کہ وہ ان کا بادشاہ ہے ایسے میں وہ کسی مزاح نگار کی طرح کوئی نہ کوئی جملہ بولتا اور جملہ حقوق اپنے نام لکھوا لیتا۔ وہ جملے ادا کرنے کے بعد پہلے خود ہنستا اور پھر نورتنوں سے کہتا کہ وہ بھی ہنسیں انہیں ملازمت عزیز تھی لہٰذا وہ خوب ہنستے ۔ کرنا خدا کا کیا ہوا ایک منہ پھٹ اس کے درشن کو آگیا اکبر بادشاہ نے پوچھا تو کون ہے منہ پھٹ نے کہا ساربان ۔۔
اکبر بادشاہ کی بذلہ سنجی اود کر آئی رگ ظرافت پھڑک اٹھی اور بولا جن لفظوں کے آخر میں ن ہوتا ہے وہ نہایت خطرناک ہوتے ہیں۔ ساربان نے کھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے کہا جی مہربان !“
اس کے بعد مجھے معلوم نہیں کہ بادشاہ نے اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا کیونکہ تاریخ ہمیشہ ان کے بارے میں خاموش ہوجاتی ہے۔ جو لفظ لوٹا دینے اور قرض چکا دینے کا سلیقہ رکھتے ہوں آخر تاریخ لکھنے والے بھی تو پیٹ رکھتے ہیں یہ پیٹ کم بخت بھی عجیب شے ہے بھوکا ہو تو سچ بولتا ہے بھر جائے تو جھوٹ۔ بادشاہ لوگ تقریباً سمجھدار ہوتے تھے لہٰذا وہ اپنے دور کے مؤرخین کا پیٹ بھرتے رہتے تھے اور ان سے جھوٹ لکھواتے رہتے تھے۔ بادشاہوں کا دور گزر گیا ، تاش کے بادشاہ بھی زیادہ پاپولر نہیں رہے جب بادشاہ نہیں تو نورتن بھی نہیں اب کوئی کسی کے درشن کو نہیں آتا لیکن منہ پھٹ لوگ ابھی تک حیات ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ہر حال میں سچ ہولتے ہیں۔ یہ جارح نہیں ہوتے۔ اپنا اور اپنی روایات کا دفاع کرتے ہیں خوشامدیوں کی ایک نہیں چلنے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ خوشامدی لوگ منہ پھٹ لوگوں سے سخت الرجک ہوتے ہیں ان کا بس چلے تو اس مخلوق کا داخلہ اخباروں کے دفاترمیں بند کردیں۔
یہاں تک لکھ لینے کے بعد میں نے اپنی تحریر کو غور سے پڑھا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ میں نے بہت خوبصورت مضمون لکھا ہے یہ اجتماعی شعور کے بارے میں ہے اس میں فن کار کی شخصیت نکھر کر سامنے آگئی ہے اور یہ واضح ہوگیا ہے کہ وہ عام افسانہ نگاروں کے مقابلے میں ہٹ کر سوچتا ہے کہ وہ کردار سازی واقعہ نگاری میں کوئی نظیر نہیں رکھتا۔ ہمیں چاہئے کہ اسے ا فسانہ نگار کی حیثیت متعین کرنے اور ادب میں اس کے مقام بنانے کے لئے سنجیدگی سے غور کریں۔
مگر یہ سب کچھ اتناآسان نہیں وہ مضمون جو مجھے خوب صورت لگتا ہے اور جسے میرا نہایت قریبی دوست اخبار میں جگہ دیتا ہے زیادہ خوبصورت نہیں بلکہ کچھ لوگوں کی رائے میں کہ اگر یہ مضمون کوئی اور لکھتا کوئی اور چھاپتا تو ان کی خیر نہیں تھی۔ میں ذاتی طورپر ان لوگوں کو بہت پسند کرتا ہوں جو مجھے پسند کرتے ہیں اور میری تحریروں سے کوئی اعلیٰ مقصد تلاش کرکے مجھے اس سے مستفید ہونے کا موقع عطا کرتے ہیں کچھ کم بخت اور عاقبت نا اندیش ایسے بھی ہیں جو خواہ مخواہ تنقید کرتے ہیں اور مجھے میری ہی نظر میں گرانا چاہتے ہیں۔
منہ پھٹ لوگوں سے میں بھی ڈرتا ہوں ویسے ان کی فہرست زیادہ طویل نہیں کیونکہ یہ مہم جو لوگوں کے کام ہیں اور ان دنوں سہل انگاری زیادہ پسند کی جانے لگی ہے بھلا کسی کو کیا پڑی کہ حاتم طائی بن کر ہفت خواں طے کرتا پھرے۔
یہ حقیقت ہے کہ اظہر سلیم مجوکہ حاتم طائی نہیں یہ ا یک مہذب اور شائستہ منہ پھٹ ہے اس کے تن نازک میں جوالہ مکھی آباد ہے جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے اور غیر مہذب لوگوں کی آبادی کے لئے چیلینج بن سکتا ہے اس نے منافقت کی دھوپ سے تنگ آئے ہوئے لوگوں کو ایک سائبان مہیا کیا ہے اور انہیں یہ اجازت دے دہی ہے کہ وہ اسے پائیڈ پارک سمجھیں اور جو ان کے جی میں آئے کہہ ڈالیں۔
اس سائبان کے تلے ان بھلے ما نسوں کی کثیر تعداد جمع ہوئی ہے جو دھوپ کی شدت کا ذاتی طور پر مقابلہ نہیں کر سکتے تھے ۔ کہنا چاہتے تھے کچھ لکھنا چاہتے تھے لیکن ان کا ادب کے مختلف حلقوں میں داخلہ بند تھا وہ خطرناک قرار دیئے جا چکے تھے۔ ان معنوں میں مجوکہ بھی ایک خطرناک آدمی ہے کیونکہ اس نے اپنے جیسے منہ پھٹ لوگوں کو پناہ دی ہوئی ہے۔
سائبان کی علمی و ادبی حیثیت کیا ہے۔ یہ کس معیار کا مجلہ ہے اور اس میں شامل ادیب و شاعر کسی پائے کے ہیں ان میں کتنی تخلیقی صلاحیت ہے ایسے تمام سوالوں کا جواب کوئی نقاد ہی دے سکتا ہے چونکہ میں خود فریق ہوں اس لئے میری گواہی معتبر نہیں ہو سکتی۔
ادب کا ایک ادنیٰ سا قاری ہونے کے ناتے سے یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اس جریدے میں شائع ہونے والی تحریریں پڑھے جانے کے قابل ہیں۔ رضی الدین رضی کے انداز سے ڈرتے ڈرتے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ مجوکہ اکبر بادشاہ نہیں ہے۔ یہ لوگوں کو اپنے درشن پر مجبور نہیں کرتا۔ ان سے کھوکھلے قہقہے نہیں لگواتا۔ اس کی محفل میں کوئی ایسا نورتن نہیں جو پیٹ کے لئے جھوٹ بولتا ہے یہ ادب کی بے لوث خدمت کرنا چاہتا ہے اور وہ تمام لوگ جو صداقت پر ایمان رکھتے ہیں اس کے سائبان کو اپنا سائبان سمجھتے ہیں۔
(اپریل 1984 میں بہاولپور میں منعقد ہونے والی سائبان کی تعارفی تقریب میں پڑھا گیا مضمون )
فیس بک کمینٹ