یہ ستمبر 2022 کا کوئی دن تھا جب مجھے حسن جاوید اور محسن ذوالفقار کی بھیجی ہوئی تین جلدوں پرمشتمل کتاب ’’سورج پہ کمند‘‘ ملی۔
ان دنوں میں لگ بھگ سال بھر کی طویل بیماری جھیل کر اٹھی تھی، یہ کورونا کا زمانہ تھا۔ ہر شخص دوسرے شخص سے ڈر رہا تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ اب گئے اور تب گئے۔ لندن کا سیاہ طاعون اور پھر بیسویں صدی کے اوائل کا طاعون جس نے لاکھوں جانوں کا نذرانہ لیا تھا۔ مجھے بھی ان تمام بلاؤں سے ڈرایا جاتا تھا لیکن مجھے معلوم تھا کہ جس لمحے موت کو آنا تھا، وہ تو آنی ہی تھی۔
اس زمانے میں کتابوں کی برسات ہورہی تھی۔ ایسے ہی دنوں میں تین جلدوں کی ایک ضخیم کتاب آپہنچی۔ میں خوشی سے سرشار ہوگئی۔ یوں بھی یہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی کتھا کہانی تھی اور این ایس ایف ہماری سیاسی تاریخ کا ایک اہم نام ہے۔ میں نے اسے پڑھنا شروع کیا اور کیسے کیسے بھولے بسرے نام یاد آئے۔ کتاب کے آغاز میں ہی اس طلباء تحریک کے اغراض و مقاصد بھی درج ہیں جو کچھ یوں ہیں:
.1 پاکستان ایک آزاد، خودمختار اور خوشحال ملک بنے۔
.2 پاکستانی معاشرہ آزادی و انصاف اور محنت کی عظمت کی بنیاد پر استوار ہو۔
.3 ملک کی باگ ڈور محب وطن محنت کش طبقے کے ہاتھ میں ہو جو دن رات محنت کر کے وطن عزیز کی تعمیر میں مصروف ہے۔
.4 تعلیم لازمی اور عام ہو۔ روزگار کی ضمانت حاصل ہو۔ نظام تعلیم بامقصد اور قومی مفادات کے مطابق ہو۔
.5 آزادیٔ تحریر و تقریر اور اجتماع حاصل ہو۔ بنیادی حقوق ہر شخص کو میسر ہوں۔
ہمارے محترم دانشور حسین نقی نے اس کے دیباچے میں بجاطور پر لکھا ہے کہ ’جمہوری حقوق کی جدوجہد پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور ترقی پسند طلباء تنظیموں کی زیرقیادت ملک کے نوجوانوں نے اس جدوجہد میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔ حسن جاوید اور محسن ذوالفقار نے ’’سورج پہ کمند‘‘ کے ذریعے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی جدوجہد کی داستان ایمانداری سے رقم کرنے کی ایک قابل قدر کوشش کی ہے۔
این ایس ایف نے طلباء کے حقوق، بالخصوص معاشرے کے ہر فرد کے حق تعلیم کے لیے جو جدوجہد کی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس تاریخ کو مرتب کرنا ایک بہت بڑا اورکٹھن کام ہے، کیونکہ اس میں درکار ذرایع مثلاً دستاویزات، تصاویر اور شایع شدہ مواد مشکل سے دستیاب ہیں کیونکہ یہ ماضی کی آمرانہ حکومتوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہ رہ سکے۔ پولیس چھاپوں کے دوران ایسے مواد پر قبضہ کرنا اور اسے ضایع کردینا ایک معمول کی کارروائی ہوتی تھی۔ عوام کے حق حکمرانی کو غصب کرتے حکمرانوں کو بھلا عوام کے حق تعلیم سے کیا دلچسپی ہوسکتی تھی۔
لہٰذا اس کتاب کے لکھنے والوں کو یاد داشتوں پر زیادہ انحصار کرنا پڑا جس کے لیے انھوں نے مختلف ادوار میں مختلف تحریکوں اور جدوجہد میں شریک سرگرم افراد سے بات چیت کی اور ان کی یادداشتوں کو جمع کیا۔ مختلف تحاریک میں حصہ لینے والے بہت سے نمایاں افراد اب ہم میں نہیں رہے، لیکن اب بھی بہت سے موجود ہیں اور ان سے گفتگو کر کے ان کی یادداشتیں جمع کی گئیں اور ساتھ ساتھ ان نمایاں افراد کی جدوجہد کی تفصیلات بھی جمع کی گئیں جو اب ہم میں نہیں رہے۔
امید کی جاتی ہے کہ ’’سورج پہ کمند‘‘ آج کے نوجوانوں کو ان کے ماضی کے ساتھیوں کی جدوجہد کے بارے میں آگہی دے سکے گی اور وہ فخر کرسکیں گے کہ ان کے ماضی کے ساتھیوں نے کن نامساعد حالات میں جنسی اور طبقاتی تفریق کے بغیر معاشرے کے ہر فرد کے حق تعلیم اور عوام کے حق حکمرانی کے لیے جدوجہد کی۔ یہ شاندار جدوجہد ان حالات میں کی گئی جب کہ وطن عزیز پر وڈیرہ شاہی اور فوجی آمریتوں کا راج تھا جنھوں نے سلطانی جمہور کے خواب کو شرمندۂ تعبیر نہ ہونے دیا اور ظلم و جبر کی یہ کہانی وطن عزیز کی سیاسی زندگی میں بار بار دہرائی گئی۔
حسن جاوید اور محسن ذوالفقار نے پاکستان میں طالبعلموں کی سیاسی جدوجہد کو اکٹھا کرنے کے لیے کتنی کٹھنائیاں سہی ہوں گی، اس کا اندازہ لگ بھگ 1800 صفحات پر پھیلی ہوئی اس کتاب کے مندرجات سے ہوتا ہے۔
ڈاؤ میڈیکل کالج کے قریب مشن روڈ پر واقع اودھ ریسٹورنٹ میں ہونے والے ایک اجلاس نے پاکستان کی جس طلباء تحریک کی داغ بیل ڈالی اس نے آنے والی کئی دہائیوں میں پاکستانی طالبعلموں کی مسلسل رہنمائی کی اور انھیں نہ صرف اپنے حقوق کے لیے بے جگری سے لڑنا سکھایا بلکہ ان نوجوانوں نے جہاں ایک طرف ملک کے دیگر محروم طبقات کے حقوق کے لیے مردانہ وار جدوجہد کی تو دوسری جانب وہ عوام کے بنیادی حقوق کی جنگ میں بھی پیش پیش رہے۔
اس اجلاس کے نتیجے میں کراچی میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا لہٰذا اس اجلاس میں شریک ڈاکٹر محمد سرور، ڈاکٹر رحمان علی ہاشمی، ڈاکٹر ایوب مرزا، ڈاکٹر ہارون احمد، مرزا محمد کاظم، سلیم عاصمی، غالب لودھی، ڈاکٹر ادیب رضوی وغیرہ کو عموماً تنظیم کا بانی ارکان سمجھا جاتا ہے۔ گوکہ اس تنظیم کی بنیاد اس سے قبل راولپنڈی میں عابد حسن منٹو اور ڈاکٹرایوب مرزا اور ان کے ساتھیوں کی رہنمائی میں رکھی جاچکی تھی۔ انیس سو چون میں ڈی ایس ایف پر پابندی کے بعد اس کے سرگرم کارکن خاموشی سے پہلے سے قائم ایک حکومت نواز تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوتے گئے اور انیس سو چھپن میں اس تنظیم پر باقاعدہ غلبہ حاصل کرلیا۔
ہماری خواہش تھی کہ اس اجتماعی کوشش کے نتیجے میں ڈی ایس ایف اور این ایس ایف کے جری کارکنان کی اس جدوجہد کو محفوظ کیا جاسکے جو انھوں نے نہ صرف اپنے حقوق کے لیے بلکہ اس وطن عزیز کے تمام محروم طبقات کے حقوق کے لیے ہر دور میں برپا کیں۔
یہ جدوجہد لوگوں کے حق حکمرانی، تحریر اور تقریر کی آزادی، پاکستان میں بسنے والے تمام لوگوں کے قومی اور لسانی حقوق، اقلیتوں اور عورتوں کی حالت زار، محروم اور مظلوم بے زمین کسانوں اور مزدوروں کے لیے برپا کی جانے والی جدوجہد ہے جس میں این ایس ایف کے کارکنان جہاں ایک طرف طالبعلموں کے حق تعلیم کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف وہ صحافیوں کے شانہ بشانہ آزادیٔ اظہار کی جنگ میں مصروف ہیں، وہ مزدوروں کی تاریخی تحریکوں میں ان کے قدموں سے قدم ملا کر چلتے ہیں تو بے زمین کسانوں کے احتجاج میں بھی ہم آواز ہیں۔
طلباء تنظیم کسی بھی ملک میں جمہوری تنظیم کا ہراول دستہ ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ابتدائی دنوں سے ہی طلباء کی تنظیم کو کچلنے کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ اس کی تفصیل سے ہمیں ’’سورج پہ کمند‘‘ کے ابتدائی صفحے بھرے ہوئے ملتے ہیں۔ ضمیر نیازی نے صحافیوں کی جدوجہد اور ان پر قیدوبند کی صعوبتوں سے ان کا دائرہ بڑھایا ہے۔
’’سورج پہ کمند‘‘ ایک ایسی دستاویز ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روز اوّل سے ایک نوآزاد ملک میں طلباء تنظیموں پر کیا گزری اور انھوں نے اپنے ذاتی مستقبل کو کس طرح جمہوریت اور آزادیٔ فکر کے لیے دائو پر لگادیا۔
یہ کتاب جو ڈاکٹر سرور، شیر افضل خان اور ڈاکٹر ادیب رضوی کے ذکر سے شروع ہوتی ہے، وہ ہمارے خون کو گرماتی بھی ہے اور ہمیں روس اور چین کی چپقلش اور ایک شاندار تحریک کی تقسیم کی بھی جھلک دکھاتی ہے۔ (جاری ہے)
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ