موت ایک اٹل حقیقت سہی لیکن یہ بھی تو ایک کڑوا سچ ہےکہ ہم نے زندگی کے خوبصورت لمحات جن کے ساتھ گزارے ہوتے ہیں،کبھی گمان بھی نہیں کرتےکہ وہ اس طرح ایک ہی لمحے میں ہمیں چھوڑ جائیں گے ۔سوشل میڈیا نے جہاں اطلاعات تک رسائی میں آسانیاں پیداکیں وہیں یہ المیہ بھی ہوا کہ ہمیں صبح آنکھ کھلتے ہی فیس بک یا واٹس ایپ دیکھنے کی عادت ہو گئی ہے۔یوں بھی تو ہم آنکھیں بند ہی چند گھنٹوں کے لیے کرتے ہیں۔ را ت گئے تک خبر کی تلاش میں سوشل میڈیا پر آوارہ گردی ہماری سرشت میں شامل ہے ،صحافت ہمارا طرزِ زندگی بن چکا ہے سو ہم دن بھر کی تھکاوٹ کے باوجود خبر کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ سماجی تقریبات سے چونکہ اب ہم دور ہی رہتے ہیں اس لیے سونے سے پہلے ایک نظر اُن پر ڈالنا بھی ضروری ہوتا ہے ۔ کہ کس نے کس کی خوشامد کی ، کس نے کس کا جھک کر استقبال کیا اور کس نے کسی ہوٹل میں کیا تناول فرمایا ۔۔۔ اس سے پہلے رات بارہ بجے کچھ دوستوں کی سالگرہ کے الرٹ آجاتے ہیں ۔۔۔ اگرکوئی اس قابل ہو تو اُسے مبارک باد کا ایک پیراگراف لکھ دیتے ہیں۔کوئی دل کے قریب ہو تو اُس کے لیے طویل پوسٹ سجاتے ہیں اور باقی سب کے لیے HBDیا ’’ دلی مبارک باد ، نیک تمنائیں ، سلامتی ہو جیسے ایک ایک دو دو لفظوں کی گردان کر تے ہوئے آنکھیں موند لیتے ہیں ۔۔۔
چلیں دن تو گزرگیا لیکن صبح آنکھ کھلتے ہی فیس بک یا واٹس ایپ دیکھنا اب تکلیف دہ ہوتا جارہا ہے۔اور ایساکیوں ہے اس کا تجربہ ہمیں 26 اکتوبر کی صبح ہوا ۔ ۔۔ آنکھ کھلتے ہی راؤ وسیم اصغر کی ایک تصویر پر نظر پڑی جو وائرل ہو چکی تھی ۔۔ ایک ایسا دوست جس کے ساتھ ہم نے نوائے وقت میں کئی سال گزارے ہم سے جدا ہو گیا تھا ۔۔ ۔راؤوسیم اصغرہمارے ہم عمر بھی تھے اورمحلے دار بھی۔ جلیل آباد کالونی میں وہ ایک چوبارے پر کئی سال مقیم رہے ۔۔ قریب ہی عارف معین بلے اور آصف خان کھیتران بھی رہتے تھے ۔ہمارا ان کے ساتھ نظریاتی تعلق بالکل نہیں تھالیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ باہمی تعلق نظریاتی تعلق سے بالاتر ہوجاتاہے۔آپ ان کے ساتھ قہقہے لگاتے ہیں،سڑکیں ماپتے ہیں،اپنے دُکھ اور خوشیاں ان کے ساتھ بانٹتے ہیں اوروہ آپ کی زندگی میں اس طرح رچ بس جاتے ہیں کہ جیسے خون رگوں میں دوڑتا ہو،اور جب کوئی رگوں میں خون کی طرح دوڑنے لگے توپھر بہت سے خونی رشتے بھی اس کے آگے ہیچ ہوجاتے ہیں۔راؤوسیم کے ساتھ ہماراروزانہ کا تعلق تھا ہم کم وبیش آٹھ سے دس گھنٹے ایک ساتھ گزارتے تھے۔۔۔ اتنا زیادہ وقت تو ہم نے کبھی اپنے گھروں میں بھی نہیں گزارا تھا ۔۔ اخبار چونکہ نظریاتی کہلاتاتھااس لیے ہمارےاوقاتِ کاربھی معمول سے زیادہ تھے۔حالاتِ کاربھی اچھے نہیں تھے۔ کبھی اوقات َ کار یاد دلانے کی کوشش کرتے تو ہمیں ہماری اوقات یاد دلا دی جاتی تھی ۔۔ ہم بے پناہ کام میں مصروف رہتے اورسینئرزکا ناروا سلوک الگ سے برداشت کرتے۔راؤوسیم اصغر پہلی شفٹ میں آتے تھے اور کبھی جلدی چلے جاتے لیکن دوسری شفٹ کے لیے اپنی شہ سرخیاں اور خبریں ہمارے حوالے کرجاتے۔ اور جاتے ہوئے اپنے لمبے گھنے اور گھنگریالے اور الجھے ہوئے بالوں کو اپنی مخروطی انگلیوں سے سلجھا کر مخصوص انداز میں کہتے ’’لو بھا ئی ہم تو چلے ۔۔ اب تم جانو اور تمہاری لوکل کاپی ‘‘ ۔ کبھی کوئی اہم خبر آجاتی تو انہیں رات گئے تک بیٹھنا پڑتا تھا ۔۔ پھر ہم ریلوے سٹیشن تک پیدل آتے اور پلیٹ فارم نمبر 5 پر صبح کی اذانوں تک محفل جماتے یہ سلسلہ کئی سال جاری رہا۔
انہی رت جگوں کے دوران ہماری بینائی متاثر ہو گئی اور ہم پندرہ روز کی رخصت پر چلے گئے ۔۔ واپس آئے تو معلوم ہوا ہماری پندرہ روز کی تنخواہ کاٹ لی گئی ہے ۔۔ پھر ہم نے نوائے وقت کو خیربار کہنے کا حوصلہ کیااور دوتین سال اچھی تنخواہ کے عوض روزنامہ ’’ نیادن ‘‘ سے وابستہ ہوگئے۔راؤوسیم اس دوران نوائے وقت میں ہی موجود رہے۔2001ء میں جب ہم نیا دن کا تجربہ کرکے نوائے وقت میں واپس آگئے تو راؤ وسیم وہیں موجود تھے۔ان کے بڑے بھائی راؤشمیم اصغر رپورٹنگ سیکشن کے ساتھ وابستہ تھے ۔ افسوس کہ وہ ہمیں وسیم کے جنازے میں دکھائی نہ دیے ۔۔یہ دونوں بھائی ڈیرہ غازی خان سے ملتان آئے اور نوائے وقت سے منسلک ہو گئے ۔۔ شمیم صاحب جبار مفتی صاحب کے ساتھ دی جرنلسٹس پینل کے بینر تلے پریس کلب میں برسر اقتدار تھے ۔۔ راؤ وسیم نے جب ’’ دی پریس ‘‘ کے نام سے الگ گروپ بنایا تو اصل میں وہ پریس کلب کی سیاست میں ایک طرح کی بغاوت تھی ۔۔ وہ بڑے بھائی کے مقابلے میں آئے اور 1999 میں پریس کلب میں مفتی صاحب اور شاہی صاحب کے روایتی پینلوں کو شکست دے کر صدر منتخب ہو گئے ۔وہ پرویز مشرف کا دور تھا ۔۔ رراؤ وسیم نے اس کڑے دور میں پریس کلب کے دروازے اپوزیشن کے سیاسی رہنماؤں کے لیے کھول دیے ۔۔

ہم نیا دن سے واپس آئے تو مفتی صاحب نوائے وقت کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر بن چکے تھے ۔۔ مفتی صاحب کو عاشق علی فرخ صاحب کی موجودگی میں ہی ریذیڈنٹ ایڈیٹر بنایا گیا تھا ۔۔ عاشق صاحب اس پر دل گرفتہ ہو کر اگست 2001 میں راؤ وسیم اصغر اور اپنے دیگر ہم خیال کارکنوں کے ہمر اہ روزنامہ ا یکسپریس ملتان سے وابستہ ہو گئے جو ملتان سے اپنی اشاعت کا آغاز کرنے جا رہا تھا ۔۔ اس کے بعد راؤ وسیم کے ساتھ ہماری ملاقاتیں کم ہوگئیں ۔لیکن وسیم صاحب نے اس کے بعد جب تک صحافت کی وہ ایکسپریس اخبار سے ہی منسلک رہے ۔
ایک بہت خوب صورت انسان ، ایک منجھا ہوا صحافی ، ایک وفا شعار ۔۔ ایک سے زیادہ خوبیاں تھیں وسیم اصغر میں ۔۔ ملتان پریس کلب کی سیاست سے نوائے وقت کے نیوز ڈیسک تک میرا وسیم کے ساتھ ذاتی تعلق تھا ۔۔ ہم نوائے وقت کے نیوز روم میں آمنے سامنے بیٹھتے تھے ۔۔ ایک ساتھ قہقہے لگاتے ، سرگوشیوں میں مشاورت کرتے ۔۔ایک ساتھ الیکشن لڑتے اور مدِ مقابل بھی رہتے ۔۔ ہم دونوں کے گھر بھی ایک ہی محلے میں ۔۔ پہلے بتا چکا ہوں کہ وسیم میرے گھر کے قریب ہی رہتے تھے ۔ایک چھوٹا سا چوبارہ تھا جہاں وہ اپنی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ مقیم تھے ان کی اہلیہ کینسر کا شکار ہو کر جوانی میں ہی انہیں داغِ مفارقت دے گئیں اس وقت وسیم کے بچے ابھی سکول کے مدارج طے کر رہے تھے ۔ وسیم نے پھر اپنی زندگی بچوں کے لیے وقف کر دی ۔ ۔ انہوں نے بچوں کو اعلی تعلیم دلائی ۔۔اور پھر ان کی مشکلات کم ہو گئیں ۔۔ وہ بچوں کے ہمراہ شہر کے مہنگے ترین علاقے میں منتقل ہوگئے تو پھر ملاقاتیں بھی بہت کم ہو گئیں ۔۔ ان سے کبھی کبھار ہی ملاقات ہوتی تھی لیکن اب اس کا امکان بھی نہیں رہا ۔۔26 اکتوبر 2025 کو راؤ صاحب ’’ لو بھا ئی ہم تو چلے ‘‘ کہہ کر اسی طرح رخصت ہو گئے جیسے وہ ڈاک کی شفٹ سے رخصت ہوا کرتے تھے ۔ ہم لوکل ڈیسک والوں کی باری جانے کب آئےگی ۔۔ ابھی تو شائد ہماری کاپی لیٹ ہے

