محسن بھوپالی کو ہم سے بچھڑے 14برس بیت گئے۔17جنوری2007کو وہ ہم سے جدا ہوئے تھے۔آج جی چاہا کہ ان کی باتیں کی جائیں اور ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کو یاد کیا جائے۔بھوپالی صاحب کے بہت سے اشعار زبان زدعام ہیں۔
چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا سمجھانے دو،ان کی اپنی مجبوری
ان کی یہ غزل بہاولپور سے تعلق رکھنے والی نام ور گلو کارہ گلبہار بانو نے کچھ اس انداز سے گائی کہ غزل بھی امرہوگئی اور خود گلبہاربانو بھی۔محسن بھوپالی نے ایک بھرپورزندگی گزاری ۔ ان کے شعری مجموعوں میں” گرد مسافت“ ، ” منظرپتلی میں“ ،” روشنی تو دیئے کے اندرہے“ ،” شکست شب“ اور ” نظمانے“ قابل ذکرہیں۔نظمانے میں انہوں نے نظم اور افسانے کو ملا کر ایک نئی صنف سخن متعارف کروائی ۔ افسوس کہ یہ صنف سخن ان کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔انہیں یہ بھی اعزاز حاصل ہو ا کہ پاکستان میں کتابوں کی تعارفی تقریبات کا آغاز ان کے پہلے شعری مجموعے شکست شب کی تقریب رونمائی سے ہوا۔یہ تقریب 1961میں حیدرآباد میں منعقد ہوئی تھی اوراس کی صدارت معروف براڈکاسٹر زیڈ اے بخاری نے کی تھی۔محسن بھوپالی نے ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی اور جاپانی ادب کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔ اسی طرح ان کایہ شعر بھی ضرب المثل کی حیثیت رکھتاہے
نیرنگی ء سیاست دوراں تو دیکھئے منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
محسن بھوپالی صاحب سے ہماری پہلی ملاقات خیر پور میرس میں 1995میں ہوئی تھی۔ہم سچل سرمست کانفرنس اور کل پاکستان مشاعرے میں شرکت کے لیے وہاں گئے تھے۔یہ تقریبات حضرت سچل سرمست کے عرس کے موقع پر منعقد ہورہی تھیں۔اس کانفرنس میں ملتان سے ڈاکٹر شفیق آصف ، سحر سیال اور بہار النساء بہار نے بھی شرکت کی۔بہاولپور سے ڈاکٹر نصر اللہ خان ناصر،حیدرآباد سے ڈاکٹر قاسم بگھیو اور کراچی سے محسن بھوپالی بھی خیرپور میرس آئے تھے۔اسی کانفرنس میں ہمیں نامور سندھی دانشور ڈاکٹر تنویر عباسی سے ملاقات کا موقع بھی ملاجو تین برس بعد 1999ء میں انتقال کرگئے۔اس زمانے میں معروف براڈکاسٹر،سندھی شاعر و دانشورمختارملک بھی ریڈیوپاکستان خیرپور میں سینیئر پروڈیوسرکی حیثیت سے کام کرتے تھے۔بعدازاں وہ اسٹیشن ڈائریکٹر حیثیت سے ملتان میں بھی تعینات ہوئے۔ کل پاکستان مشاعرے میں اردو،سرائیکی اور سندھی شعرا نے شرکت کی۔
اسی کانفرنس اور مشاعرے میں محسن بھوپالی صاحب کے ساتھ ملاقات ہوئی تو پھرمستقل رابطے کی صورت نکل آئی۔میں اس زمانے میں شاکر حسین شاکر کے ساتھ مل کر” انتخاب “ کے نام سے ادبی جریدہ شائع کرتاتھا۔بھوپالی صاحب نے اس کے لیے سندھی شاعری کے تراجم اور اپنی دیگر تخلیقات بھی ارسال کیں۔اسی جریدے کی وساطت سے ڈاکٹر قاسم بگھیو کے ساتھ بھی مسلسل رابطہ رہا۔اگلے برس بھوپالی صاحب نے بتایا کہ وہ ملتان آرہے ہیں۔ 19مارچ1996کو ملتان پریس کلب میں محسن بھوپالی کے اعزاز میں شعری نشست منعقد ہوئی۔ ان دنوں معروف پنجابی شاعر بابا نجمی بھی ملتان آئے ہوئے تھے۔تقریب کا اہتمام ملتان پریس کلب کی لائبریری کمیٹی نے کیاتھا۔تقریب کی صدارت ڈاکٹر محمد امین نے کی ۔پریس کلب کے صدر غضنفر علی شاہی اورجنرل سیکرٹری مظہر جاوید بھی تقریب میں موجودتھے۔ فنانس سیکرٹری کاعہدہ اس زمانے میں خود ہمارے پاس تھا جبکہ لائبریری کمیٹی کے سیکرٹری محمد مختارعلی نے اس تقریب کی نظامت کی۔اس موقع پر بھوپالی صاحب کے ساتھ مکالمہ بھی ہوا۔ بابا نجمی کے ساتھ وہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔انہوں نے بھی حیران کردینے والی پنجابی شاعری اس محفل میں سنائی۔
اس محفل میں جن شعرانے شر کت کی ان میں ڈاکٹرارشد ملتانی، پروفیسراصغر علی شاہ، ڈاکٹرشوذب کاظمی، تحسین غنی، مرتضی اشعراور رہبر صمدانی کے نام قابل ذکرہیں۔اس اختصاریے کا اختتام ہم محسن بھوپالی صاحب کے ان اشعارپرکرتے ہیں
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
ا س حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
زاویہ کوئی مقرر نہیں ہونے پاتا
دائمی ایک بھی منظرنہیں ہونے پاتا
میں نے جس طرح زیست کاٹی ہے
ایک دن ہی سہی بسر تو کر
ٌ( بشکریہ : روزنامہ سب نیوز اسلام آباد )