1956ء کے موسم بہار کا ذکر ہے۔ میں آٹھویں جماعت کے وظیفے کا امتحان دے چکا تھا۔ نتیجے کے آنے میں دیر تھی۔فراغت و فرصت کے دن تھے۔ لاہور اور راولپنڈی کی سیر ہوچکی تھی۔ صبح وشام صرف دوکام تھے۔ فٹ بال کھیلنا اور باغ لانگے خان کی لائبریری میں اخبارات و رسائل پڑھنا۔میرے ایک قریبی عزیز تاریخی دارالمطالعے کی مجلس انتظامیہ میں شامل تھے۔ لائبریرین بڑے احترام سے میرا استقبال کیا کرتے تھے۔ میں عام طورپر شام کے چاربجے تک باغ لانگے خان کی سیر کرتا ہوا دارالمطالعے کی عمارت میں داخل ہوجاتاتھا۔ لائبریری کے شمال کی جانب ولی محمد خان کی بنائی ہوئی نہر بہتی تھی۔ میں تازہ ترین رسالوں اور ا خباروں کے ساتھ نہر کے بائیں والی کھڑی کے ساتھ میز کے سامنے بیٹھ جاتا۔لاہور اور کراچی کے اخبارات دوبجے تک آجاتے تھے۔روزنامہ ”انجام“ میرا پسندیدہ اخبارتھا۔بچوں کے صفحات پر میری نظمیں بھی چھپا کرتی تھیں۔ میں مطالعے سے فارغ ہونے کے بعد باغ سے گزرتا ہوا گھر پہنچ جایا کرتاتھا۔
ان دنوں ہم بوہڑ گیٹ رہتے تھے۔ لانگے خان کے باغ میں سیاسی و مذہبی جلسے ہواکرتے تھے۔ میں نے یہاں بہت سے معروف خطیبوں اور رہنماؤں کو سنا تھا اوربھرپور استفادہ کیاتھا۔ میں جس موسم بہار کا ذ کر کررہا ہوں یہ واقعہ اسی کی ایک سہ پہر سے تعلق رکھتا ہے۔ جلسے سےسردار عبدالرب خان نشتر تقریر کررہے تھے۔نظامت کے فرائض سید صاحب علی شاہ گردیزی انجام دے رہے تھے اور اسٹیج پر تقریباً تمام قابل ذکر مسلم لیگی لیڈرموجودتھے۔ صاحب علی شاہ گردیزی کی نظامت بڑی دل پذیر ہوتی تھی۔وہ موقع محل کے لحاظ سے اردو،فارسی، عربی،پنجابی اور سرائیکی کے شعر سنا کرمجمع کوباندھے رکھتے۔ا ن دنوں اخبارات میں جلسوں کے سامعین کی تعداد کے بارے میں غلط اعداد و شمار شائع نہیں ہوا کرتے تھے۔ مسلم لیگ کے جلسوں کی روداد عام طوپر روزنامہ نوائے وقت میں بڑی تفصیل سے شائع ہواکرتی تھی۔ میں نوائے وقت کے اداریئے اور فکاہی کالم سرراہے پوری دلچسپی سے پڑھا کرتاتھا۔روزنامہ امروز کے فکاہی کالم حرف وحکایت پڑھ کربھی بہت مزا آتاتھا۔ یہ دونوں اخبارلاہور سے ملتان سہ پہر تک پہنچ جایا کرتے تھے۔
صاحب علی شاہ گردیزی مرحوم نے سردار عبدالرب نشترمرحوم کاتعارف اپنے مخصوص انداز میں کرایا۔ سردارصاحب جب مائیک کے سامنے آئے تو مجمع کی حالت دیدنی تھی۔ لگتا تھا کہ ہر سامع سردار صاحب کواپنی آنکھوں میں بھرلیناچاہتا ہے۔پانچ منٹ تک تالیاں بجتی رہیں۔ پھرپاکستان زندہ باد، قائداعظم زندہ باد کے نعرے گونجنے لگے۔ یہ نعرے ختم ہوئے تو سردارصاحب نے دونوں ہاتھ اونچے اٹھا کر اور انہیں ہلاہلا کر اظہارتشکر کیا۔انہوں نے قرآن حکیم کی تلاوت کی۔ وہ ذرا دیر کورکے۔ پھرنعرے گونجنے لگے۔ سردار صاحب بھی نعروں کاجواب دیتے رہے۔ پھرانہوں نے اپنی تقریر کا آغاز اس شعر سے کیا
نیرنگی سیاستِ دوراں تو دیکھیئے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
اللہ اللہ کیا اندازتھا۔ کیا دبدبہ تھا۔ مرحوم ایک بھرپور شخصیت تھے۔ حسین وجمیل، پررعب، پرکشش اور پراعتماد۔ شعر نے مجمع کومرغ بسمل کی طرح تڑپا کے رکھ دیا تھا۔
ملتان ایک علم دوست اورادب پرور شہر ہے۔ اس شہر کا شاید کوئی گھراناایسا ہوگا جس میں ادب کا ذوق نہ ہو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شعر کی داد نے سردار صاحب کے خطاب کوچند لمحوں کے لیے موخر کردیا۔ وہ بھی بہت خوش تھے۔ بعد میں انہوں نے ایک گھنٹے تک خطاب کیا۔ میں اسٹیج پر بیٹھاتھا۔گم سم، اور سردار صاحب کو تکے جارہاتھا۔ میں نے دس سال کی عمر میں کئی تقریری مقابلوں میں شریک ہو کر انعامات حاصل کیے تھے۔ اچھی تقریر مجھے بھی متاثر کرتی ہے۔ جلسہ تو ختم ہوگیا لیکن وہ شعرپورے ملتان کی زبان پرچڑھ گیا۔
رات کو بزم ضیائے ادب ملتان کا مشاعرہ تھا۔ اس میں ملتان کے نمایاں شاعروں کے علاوہ ساغر صدیقی(مرحوم)، میکش مرادآبادی کراچی سے تشریف لائے تھے۔ دونوں میرے بزرگ تھے۔ اور مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔ کسی نے یہ شعر انہیں سنایا۔ کچھ لوگ کہنے لگے کہ یہ شعر سردار عبدالرب نشتر مرحوم کا ہے۔ بھائی میکش مراد آبادی نے تصحیح کی اورفرمایا یہ شعر نوجوان شاعر محسن بھوپالی کا ہے۔
تو یہ ہے میرا محسن بھوپالی سے پہلا تعارف میں نے اپنے بچپن اور لڑکپن سے احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی، احمد فراز، فیض احمد فیض، احسان دانش، حمایت علی شاعر، شہزاد احمد، محسن احسان، ساحر لدھیانوی، ساغر صدیقی، عاصی کرنالی، حزیں صدیقی، ایازصدیقی،،عزیز حاصل پوری اور اپنے ہم سن دوست بھائی ہم زاد حسین سحر کو بہت پسند کرتا ہوں۔اس پسند میں جہاں اورکئی نام بعد میں شامل ہوئے ان میں سب سے بلند اور اونچا نام محسن بھوپالی کا ہے۔ اب تک محسن بھوپالی نوجوانوں کا آئیڈیل شاعر ہے۔ میرے شہر کے لوگ بھی انہیں بڑا شاعر مانتے ہیں۔ گزشتہ دنوں رضی الدین رضی اورشاکر حسین شاکر نے نمائندہ شاعروں کا انتخاب شائع کیا ۔ انتخاب کانام محسن بھوپالی کے ایک مصرعے سے لیاگیا ہے۔
وہ عشق جوہم سے روٹھ گیا
اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہم محسن بھوپالی سے کتنا پیارکرتے ہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ ہم حمایت علی شاعر سے بھی پیارکرتے ہیں اور عقیدت بھی رکھتے ہیں۔ 1974ء میں مجھے چند برسوں کے لیے فیملی پلاننگ کی طرف سے ریڈیو پاکستان ملتان میں مشیر کی حیثیت سے مقرر کیاگیاتھا۔ میرا دفتر ریڈیو پاکستان ملتان کی نہایت خوبصورت عمارت کی چوتھی منزل پر تھا۔ حمایت علی شاعر ریکارڈنگ کے لیے آتے تھے۔ ریکارڈنگ سے فارغ ہو کر وہ بھائی حسین سحر کے ہمراہ مجھے سے ملنے تشریف لائے۔ چوتھی منزل ظاہر ہے چوتھی منزل ہوا کرتی ہے۔ حمایت علی شاعر نے میرے دفتر پہنچتے ہی فی البدیہہ شعر کہا
دیکھنا اقبال ارشد کامکاں
سیڑھیاں ہی سیڑھیاں ہی سیڑھیاں
پھربولے اسے یو کرلو
دیکھنا اقبال ارشد کامکانِ لامکاں
سیڑھیاں ہی سیڑھیاں ہی سیڑھیاں ہی سیڑھیاں
کیوں بلندی کااحساس جاگا۔۔۔۔۔۔
مجھے معلوم ہوا کہ بھائی محسن بھوپالی سٹیشن ڈائریکٹر سید حمید اصغر کے کمرے میں بیٹھے ہیں۔ یہ سنتے ہی دوڑا اور سیڑھیاں تیزی سے اترتا ہوا حمید اصغر صاحب کے کمرے میں آگیا اور بلاتکلف بھائی محسن بھوپالی سے بغل گیر ہوگیااورانہیں یہ جتانے کی سعی کی کہ کچھ عشق روٹھا نہیں کرتے۔
محسن بھوپالی نے سرگزشت کے تازہ شمارے میں مجھے خوش فکر شاعر کہا ہے۔ یہ ان کا بڑاپن ہے۔ اسی شمارے میں ڈاکٹر ساجد امجد نامی ایک شخص نے میری تحقیر کی کوشش کی ہے ا ور میرے ایک شعر کوقابل اجمیری مرحوم کے نام سے منسوب کردیا ہے۔ میں بھائی محسن بھوپالی سے صرف اتنا پوچھتاہوں کہ جب ان کے شعر کو سردارعبدالرب نشتر مرحوم کے نام سے منسوب کیاجاتا تھا ان کی کیا کیفیت ہوتی تھی!
اور اگر اطہر نفیس کاشعر ان سے منسلک کردیا جائے تو اطہر کے چاہنے والوں کا کیاحال ہوگا۔
( مطبوعہ : روزنامہ نوائے وقت ملتان ۔۔ چوبیس جنوری انیس سو ترانوے )
فیس بک کمینٹ