12 دسمبر 2024 کو رضی بھائی کے توسط سے یہ اندوہناک خبر ملی کہ ممتاز مصور، خطاط اور کمپیوٹر گرافکس کے ماہر جناب راشد حسین سیال داغ مفارقت دے گئے۔ میں اس وقت برطانیہ میں موجود ہوں۔ کرسمس کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ انگریز یہ مہینہ جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ بازار میں نکلیں تو دسمبر کا ہر دن عید کا دن معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے لیے یہ مہینہ اداسی کا مہینہ ہے۔ ملتان کے معروف شاعر جناب عرش صدیقی کی نظم "اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے” نے دسمبر کو اداس اردو شاعری کا مہینہ بھی بنا دیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں دسمبر بہت سے صدمات لے کر آیا ہے۔ ان میں 16 دسمبر 1971 کا دن 2014 سے پہلے پاکستان کے لیے سب سے بڑی ٹریجڈی یعنی سقوط ڈھاکہ کے طور پر منایا جاتا تھا۔ پھر 16 دسمبر 2014 کو پاکستانی طالبان نے آرمی پبلک اسکول کے 132 معصوم بچوں کو شہید کر دیا۔ آج اس سانحے کو دس سال گزر گئے لیکن یہ زخم اب بھی تازہ ہے۔ جونہی سوشل میڈیا پر اس سانحے کی کسی پوسٹ پر نظر پڑتی ہے تو بےساختہ آنسوؤں کی ایک جھڑی نکل پڑتی ہے جو روکے نہیں رکتی۔ پھر کچھ شخصیات ہیں جن میں سب سے معتبر نام شاید شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا ہے جو 27 دسمبر 2007 کو ہمیں اک روشنی کا خواب دکھا کر چلی گئیں۔ 26 دسمبر 1994 کو خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر ایک ٹریفک حادثے میں چل بسی تھیں۔ میں اور میرے والد کچھ دوستوں کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں موجود تھے جب پانچ بجے کی پنجابی خبروں میں ہمیں اس سانحے کی خبر ملی۔ یہ خوبصورت لوگ گویا ہمارے گھر کے افراد تھے۔ غرض یہ کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ دسمبر ہمارے لیے دکھوں کا ایک ملبہ لے کر آتا ہے جس کا بوجھ اٹھائے ہم نئے سال میں داخل ہوتے ہیں۔
جناب راشد سیال نے 2023 میں میری شاعری کے پہلے مجموعے "حیرت کدے میں حیرت” کا ٹائٹل بنایا تھا۔ رضی بھائی نے یہ ٹائٹل مجھے بھیجا تو میں حیران رہ گیا۔ راشد سیال نے کتاب کے عنوان کے عین مطابق ڈیزائن بنایا، اور میں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اسے منظور کر لیا۔ راشد صاحب سے میری ایک ہی ملاقات رضی بھائی کے توسط سے ان کی دکان پر ہوئی۔ پہلی نظر میں مجھے وہ ایک کم گو اور سنجیدہ تخلیق کار لگے۔ انہوں نے بہت محبت سے مجھ سے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو کتاب کا ٹائٹل کیسا لگا؟ میرے پاس ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں تھے۔ وہ ایک منکسرالمزاج شخصیت تھے۔ ان میں غرور نام کی کوئی شے موجود نہیں تھی۔ وہ میری پسند کے مطابق ٹائٹل کی تبدیلی کے لیے بھی تیار تھے لیکن میں نے ان کے سامنے ہاتھ جوڑ لیے۔ وہ میری تصویر ٹائٹل میں ایڈجسٹ کرنے کے لیے بہت دیر میرے ساتھ بیٹھے رہے اور بہت تحمل سے میری پسند کے مطابق اس میں تبدیلیاں کرتے رہے۔ ان کے چہرے پر تھکاوٹ اس وقت بھی نمایاں تھی۔ وہ ذہنی طور پر تھک چکے تھے لیکن جسمانی طور پر بظاہر بالکل صحتمند تھے۔ رضی الدین رضی بھائی نے ان کی علالت کی پوسٹ لگائی تو یقین نہیں آیا کہ وہ اچانک اتنے بیمار ہو گئے۔ پھر پتا چلا کہ وہ رو بہ صحت ہیں تو دل کو کچھ اطمینان ہوا۔ اور پھر 12 دسمبر کو اچانک ان کی وفات کی خبر ملی۔ ان کی عمر صرف 54 برس تھی۔ یہ عمر کوچ کرنے کی نہیں ہوتی۔ انہیں اتنی جلدی نہیں کرنی چاہیے تھی۔
میرے پاس تعزیت کرنے کو صرف رضی الدین رضی ہیں جن کے لیے رفتگان ملتان کی فہرست میں ایک اور شخصیت کا اضافہ ہو چکا ہے۔ رضی بھائی خدا آپ کو حوصلہ دے، آپ نجانے کتنے دکھوں کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ اللہ جناب راشد حسین سیال کی مغفرت فرمائے۔
فیس بک کمینٹ