اب میں یہ بتانے کی کوشش کروں گا کہ بلوچ لکھاریوں نے اتنے زیادہ مغالطے کیوں پیدا کر رکھے ہیں۔؟ اب دیکھیں سيريا يعنی شام کا ايک عربی السامی علاقہ ہے جہاں پر عربی آس پاس بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کچھ گروہ حلب سے درانداز یا ہجرت کی غرض سے نکلتے ہيں اور ايران ، اومان کے راستے ملتان میں داخل ہوتے ہيں کيا ان گروہوں کی بول چال اور رسم و رواج میں ” ٻ، ، ٹ ، چ ،ڄ ، ڈ ، ݙ ، ڑ ، ژ ، گ، ڳ ، ݨ "کی آوازيں یا ایسے الفاظ بولنے کی صلاحیت ہو گی ؟ يا آنے والوں میں ایسی ذاتيں ، قومتيں ہونگی ؟ نہيں اس تصور کا سوال پيدا نہيں ہوتا ۔ جب یہ گروہ ملتان کی حدود میں داخل ہوئے ہوں گے تو یہاں کے لوگوں کے ساتھ میل ملاپ کے بعد اس گروہ میں ملتانی آوازیں اور ملتانی گروہ شامل ہوئے ھونگے یقیناً ایسا ہی ہے ۔ میں نے جس سے بحث کی ہے انھوں نے کہا ہے بلوچوں نے یہاں پر آ کر بروہی ، سندھی اور سرائیکی سیکھی ہے ۔ جن گروہوں ، قومیتوں سے انھوں نے سرائیکی یا بروہی سیکھی ہے وہ کون تھے یا کون ہیں ؟ یا پھر ہم فرض کر لیں کہ سرائیکی سکھانے والے فرشتے یا چرند پرند تھے جو سرائیکی سکھا کر غائب ہو گئے ؟ انکی قومیت انجان بن گئی ، اور بلوچوں کو سرائیکی ، بروہی سکھا کر اس سرزمین سے ہجرت کر گئے ؟ سرائیکی کے بارے میں مشہور ہے سرائیکی ہجرت نہیں کرتے بلکہ اپنے وطن میں رہنا پسند کرتے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہ قومیں ، قبیلے کہاں ہیں جنھوں نے بلوچوں کو سرائیکی ، سندھی ، بروہی سکھائی ؟ بقول بلوچوں کے سرائیکی زبان ہے قوم نہیں ہے ؟ تو بلوچوں کو سرائیکی سکھانے والے گروہ کدھر ہیں ؟ دراصل بات یہ ہے جن گروہوں پر بلوچ ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے یہی وہ گروہ ہیں جنھوں نے بلوچوں کو سرائیکی ، سندھی اور بروہی سکھائی ہے اور یہی گروہ جبری انتقال قومیت کا نشانہ بنے ہیں یہی قبائل آج بھی تہذیبی ، لسانی ، ثقافتی طور پر سرائیکی ، سندھی ہیں جو بلوچوں کی وجہ سے جبری انتقال قومیت کا نشانہ بنے ہیں ۔
بلوچوں کا یہ کہنا کہ سرائیکی زبان ہے قوم نہیں ہے خود ساختہ نظریہ ہے دراصل بلوچ ملتانی آوازیں نکالنے والے گروہ کا جبری شکار کرنا چاہتے ہیں اور بروہی کی طرز پر جبری طور پر گمشدہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان ذاتوں اور قومیتوں کو جبری انتقال قومیت کے ذریعے بلوچوں کے ساتھ منسلک کیا جا سکے اور یہ جبری انتقال قومیت عرصہ دراز سے جاری ہے ۔ حالانکہ جیسا کہ اوپر واضع ہوتا ہے بلوچی لسان کا تعلق سامی السان گروپ سے ہے جس کے اندر ملتانی آوازیں نہیں بولی جاتی پھر یہ سوال اپنی جگہ پر وزن رکھتا ہے بلوچ گروہ کے اندر گ ، ٹ ، ڑ ، جٰ ، چ ٰ ، نٰ وغیرہ کی اوازیں نکالنی والی قومیں کیسے داخل ہوئی ہیں ؟ واضع اور واشگاف الفاظ میں کہنا چاہتا ہوں سرائیکیوں کو بھی جبری انتقال قومیت کا سامنا ہے ۔ اور بلوچ ، سرائیکی قبائل کو زبردستی بلوچ بنا کر پیش کر رہے ہیں اور انکو جبری انتقال قومیت کےذریعے غائب کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ بلوچوں نے بروہی کے ساتھ کیا بروہی کو جبری طور پر غائب کر دیا ہے اور بروہیوں کی غالب اکثریت آج خود کو بلوچ سمجھتی ہے ۔ حالانکہ بروہی قلات کے وارث ہیں زمینی حقائق اس بات کے شاہد ہیں کہ بروہی ہی قلات کے وارث ہیں لیکن جبری انتقال قومیت کی وجہ سے قلات پر بلوچ مسلط ہیں ۔ جس نے بروہی کی علاقائی شناخت کو مسخ کر دیا ہے ۔
بلوچوں کا یہ دعویٰ کہ بروہی ، بلوچ ہيں يہ بات عقل تسلیم نہيں کرتی کيونکہ بلوچ عرب کے مرکز سے آئے ہيں اور بروہيوں کا دعویٰ ہے وہ دراوڑی النسل کی سرحد پر آباد ہيں دونوں لسانی ، تہذيبی ، تمدنی ، خونی ، ثقافتی ، جغرافيائی لحاظ سے ايک دوسرے کی ضد ہيں ايک دوسرے کی مخالف سمت ميں رہنے والے ہيں تو بلوچوں کا يہ دعویٰ خود ساختہ ہے ظلم پر مبنی ہے يہ دعوی جبری انتقال قوميت کا جرحانہ طرز عمل ہے جو بلوچوں نے بروہی پر مسلط کر رکھا ہے اور بروہی رياست قلات پر قبضہ کر کے بروہيوں کو بے شناخت کر ديا ہے کيونکہ علاقے کی شناخت قوميت کی شناخت کے ساتھ منسلک ہوتی ہے علاقائی شناخت سے ہی آپ اپنے قومتی وجود کو تسلیم کرواتے ہیں اگر اپکی علاقائی شناخت پر انجان گروہ کا قبضہ ہو جائے تو آپ مجبور ہو کر مسلط کردہ گروہ کی شناخت کو اختیار کر بیٹھتے ہیں جیسا کہ بروہی اور پوٹھواریوں کے ساتھ ہوا ہے ۔
سرائیکی بھی متاثرہ فریق ہیں ملتان جس کی سرحدیں کیچ مکران تک تھیں اور ہیں سرائیکی پے در پے حملوں کے نتیجے میں کیچ سے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے اور کیچ مکران کے مقامی جبری انتقال قومیت کا شکار بنے۔ موجودہ بلوچستان میں بھاگ ناڑی سرائیکی علاقہ ہے جہاں پر قدیم سرائیکی آج بھی آباد ہیں جنہوں نے جبری انتقال قومیت کو مسترد کیا ہے بلوچستان میں آپ کو سرائیکی بولنے والے قبائل جہاں کہیں بھی ملیں، ان کی آبائی جڑیں کسی نہ کسی پشت میں اسی ناڑی میں جاکر ملیں گی ۔ سرائیکی کے بہت سارے دوسرے قدیم قبائل جو جبری انتقال قومیت کا نشانہ بنے اور اپنی شناخت کو کھو بیٹھے اب ان قبائل پر بلوچی کا ٹھپہ لگتا ہے حالانکہ تہذیبی ، تمدنی ، لسانی ، نسلی ، ثقافتی ، جغرافیائی طور پر ان قبائل کا تعلق حلب سے نہیں ہے بلکہ یہ قبائل سرائیکی ہیں لیکن جبری انتقال قومیت کا شکار ہو چکے ہیں اور بالواسطہ یا بلاواسطہ بلوچ کہلواتے ہیں ہمیں بروہی اور پوٹھواری قوم کی جبری گمشدگی سے سبق سیکھنے کی اشد ضرورت ہے یہ جبری گمشدگی فرد واحد یا گروہ کی نہیں ہوتی بلکہ پوری قوم اور اس قوم سے منسلک ڄغرافیہ سے ہوتی ہے جسکو جبراً اغوا کر لیا جاتا ہے اور جبراً انتقال قومیت مسلط کر دی جاتی ہے