جب 1980-81ء میں جبارمفتی نے مجھے اور شاکر حسین شاکر کو چارلس اور ڈیانا کی جوڑی قراردیا تو اس پر ہم دونوں میں کوئی تنازع نہ ہوا۔ دونوں ہی خود کو خوبصورت سمجھتے تھے اور ہم میں سے کسی نے جبار مفتی سے یہ پوچھنے کی زحمت بھی نہ کی کہ آپ نے ہم میں سے ڈیانا کسے اور چارلس کسے قرار دیا ہے۔ جھگڑا اس وقت ہوا جب اس دوران اقبال ساغر صدیقی نے ہمیں امانت علی اور خیانت علی کی جوڑی قراردے دیا۔ اگرچہ ہم دونوں کا کسی استاد گھرانے سے تعلق بھی نہیں تھااس کے باوجود ہم دونوں ہی خود کو امانت علی اور دوسرے کو خیانت علی سمجھتے تھے۔ پھر ایک روز ہم نے جی کڑا کر کے ساغر صاحب سے پوچھ ہی لیا کہ جناب آپ نے ہم میں سے خیانت علی کسے کہا ہے۔ ساغر صاحب ہمارے ایک مضمون کا مطالعہ کررہے تھے۔ مضمون سے نظریں ہٹائے بغیر کہنے لگے
’’ آپ دونوں ہی خیانت علی ہیں، امانت علی کا اضافہ تو ہم نے آپ کی دل جوئی کیلئے کردیاتھا۔‘‘
بے تکلفی اور محبت کا یہی انداز تھا جو نوجوانوں کو اقبال ساغر صدیقی کی شخصیت کا اسیر بناتاتھا۔ وہ روزنامہ امروز کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر تھے لیکن ان کے کمرے میں جانے کیلئے کسی استقبالیہ کلرک کے ذریعے کوئی چٹ نہیں بھجوانا پڑتی تھی۔ فون کرکے ان سے ملاقات کا وقت نہیں لینا پڑتا تھا۔ ہم سکول اور کالج کے زمانے میں جب جی چاہتا اپنا کوئی مضمون، غزل یا نظم لے کر ان کے پاس پہنچ جاتے۔ ساغر صاحب کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوتے وہ ہمیں اپنے پاس بٹھاتے، چائے پلاتے، اگر ہماری تحریر میں کوئی غلطی ہوتی تو اس کی نشاندہی کرتے، کوئی مضمون ناقابل اشاعت ہوتا تو اسے ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی بجائے ہمیں واپس کردیتے ۔اور اس انداز میں واپس کرتے کہ ہم مایوس ہونے کی بجائے نئے عزم کے ساتھ گھر واپس آجاتے۔ دوبارہ مضمون تحریر کرتے اور پھر ہماری تحریر قابلِ اشاعت ہوجاتی۔ اقبال ساغر صدیقی نوجوانوں کی ہمت بندھاتے تھے۔ انہیں لکھنے کیلئے نئے نئے موضوعات دیتے تھے۔ میرے علاوہ شاکر حسین شاکر، اطہر ناسک، اظہر سلیم مجوکہ، سلیم ناز، اسلام تبسم اور خالد اقبال بھی اس زمانے میں امروز کے صفحات میں مستقل لکھا کرتے تھے۔ یہ امروز ہی کی تربیت تھی جو بعد ازاں ہمیں صحافت کے میدان میں لے آئی۔
2جنوری2012ء کو اقبال ساغر صدیقی اپنا سفر تمام کر کے اس جہان سے رخصت ہوگئے اور وہ تنہا رخصت نہ ہوئے ان کے ساتھ بہت سی اقدار اور روایات بھی رخصت ہوگئیں۔ ساغر صاحب 19ستمبر1930ء کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی میں ہی کالج میگزین کے ایڈیٹر بنے۔ قاضی عبدالغفار کے روزنامہ ’’ پیام‘‘ سے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا1962ء میں روزنامہ پیام کی بندش کے بعد ساغر صاحب ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ انہوں نے روزنامہ امروز کراچی کے ساتھ وابستگی اختیار کرلی۔ 1964ء میں وہ ملتان آئے اور پھر اسی شہر کے ہوگئے۔ امروز میں انہوں نے رپورٹر، سب ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹر، میگزین ایڈیٹر کی حیثیت سے اخبار کے ہر شعبے میں کام کیا اور1978ء میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ان کا کالم ’’ ہاں مری چشم گنہگار نے یہ بھی دیکھا‘‘ اپنے زمانے کا مقبول کالم تھا۔ وہ کم وبیش 40برس تک ملتان کی ادبی صحافتی سرگرمیوں کا محور رہے۔ شہر کی ہر تقریب ان کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی تھی۔ اس دوران ان کے انشائیوں کے دو مجموعے ’’ شوخ�ئ تحریر‘‘ اور ’’ گل افشانئ گفتار‘‘ شائع ہوئے۔ وہ ملک بھر میں انشائی ادب کے حوالے سے ملتان کی پہچان تھے۔
اقبال ساغر صدیقی ہمار ے لیے آئیڈیل کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ اس زمانے کے صحافی تھے جب صحافت واقعی ایک مشن ہوا کرتی تھی۔ جب صحافی کی لکھی ہوئی بات کو اہمیت دی جاتی تھی۔ آج جو مسائل پورے پورے صفحات اور ٹی وی چینلوں کے ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹوں کے پروگراموں کے باوجود حل نہیں ہوتے اس زمانے میں ایڈیٹر کی ڈاک میں چند سطر کا مراسلہ شائع ہونے سے حل ہوجایا کرتے تھے اور اس لئے حل ہوتے تھے کہ اس زمانے میں ایڈیٹر کا ادارہ معتبر تھا اور اقبال ساغر صدیقی جیسی شخصیات ایڈیٹر کے مناصب پر فائز تھیں۔ ایڈیٹر کا عہدہ اس لئے بھی معتبر تھا کہ ایڈیٹر اس زمانے میں ٹرانسپورٹر نہیں تھے۔ وہ گیٹ ہاؤسز کے مالک نہیں تھے۔ ایڈیٹر زمینوں پر قبضے کرانے کیلئے پولیس کے ساتھ روابط نہیں رکھتے تھے۔ ایڈیٹر اس دور میں سٹیٹ کے محافظ ہوتے تھے۔ فی زمانہ وہ اسٹیٹ کیلئے کام کرتے ہیں۔ وہ قلم کی حرمت کا خیال رکھتے تھے اور اس لئے خیا ل رکھتے تھے کہ وہ خود بھی قلمکار ہوتے تھے۔
اقبال ساغر صدیقی اور ان سے پہلے مسعود اشعر کی ادارت میں امروز نے ملتان میں ایک ترقی پسند اور روشن خیال معاشرہ ترتیب دیا۔ اخبار کا دفتر ایک ادبی و ثقافتی مرکز کے طور پر جاناجاتاتھا۔ اقبال ساغر صدیقی، ولی محمد واجد، مرزا ابن حنیف، نوشابہ نرگس، حزیں صدیقی،رشید ارشد سلیمی ، مسیح اللہ جام پوری اور مظہر عارف جیسے قلمکار اس اخبار سے وابستہ تھے۔ امروز ایک سرکاری اخبار تھا لیکن اس سرکاری اخبار کے کارکنوں نے آمریت کے خلاف جدوجہد کی۔ انہوں نے جمہوریت کیلئے جو قربانیاں دیں انہیں کبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ اقبال ساغر صدیقی جیسے صاحب اسلوب انشائیہ نگار اور کالم نگار کی تحریریں پڑھ کر ہم نے با ت کہنے کا سلیقہ سیکھا۔ سنسر شپ کے زمانے میں سب کچھ کہہ کر بھی ضیاء جیسے ڈکٹیٹر کے چنگل سے کیسے بچاجاسکتاہے۔ ہماری یہ تربیت اقبال ساغر صدیقی اور منو بھائی کے کالموں سے ہوئی۔ ساغر صاحب کے بعض جملے ضرب المثل کی طرح مشہور ہوئے۔ ضیاء دور میں محمد علی ہوتی وزیر تعلیم ہوتے تھے۔ اقبال ساغر صدیقی نے ایک کالم میں لکھا
’’ زوال تعلیم کا ایک سبب یہ ہے کہ ہمارے دور میں وزیر تعلیم ہوتے تھے اب ہوتی ہیں ‘‘۔
شائستہ اور برجستہ مزاح اقبال ساغر صدیقی کے انشائیوں کی بنیادی خوبی ہے ۔ وہ اشعار اور مصرعوں کے برمحل استعمال سے اپنی تحریر کو خوبصورت بناتے تھے۔ ہم نے انہیں بار ہا تقریبات میں مضمون پڑھتے سنا۔ جب تک اقبال ساغر صدیقی سٹیج پر موجود رہتے تھے پنڈال قہقہوں اور تالیوں سے گونجتا رہتاتھا۔ اور جیسے آج خالد مسعود کے بعد کوئی شاعر مشاعرہ پڑھنے کی جرأت نہیں کرتا اسی طرح اقبال ساغر صدیقی کے بعد کسی مضمون نگار کیلئے سٹیج پر آنا ممکن ہی نہ ہوتاتھا۔ لاؤڈ سپیکر کے بارے میں ان کے ایک مضموان کا اقتباس ملاحظہ کیجئے۔
’’پیدائش کے بعد مولوی صاحب نے ہمارے کان میں اذان دی ، ہماری زندگی کی وہ پہلی اور آخری اذان تھی جو ہم نے لاؤڈ سپیکر کے بغیر سنی‘‘ ۔
’’ گل افشانئ گفتار‘‘ اقبال ساغر صدیقی کے مضامین کے مجموعے کا نام ضرور ہے لیکن یہ گل افشانی ان کی شخصیت کا بھی حصہ تھی۔ 1999ء میں مختلف اخبارات کے نوجوان صحافیوں نے ملتان میں روزنامہ’’ نیادن‘‘ کا اجراء کیا۔ اخبار کی اشاعت کے بعد ساغر صاحب کا فون آیا، کہنے لگے
’’ جس طرح آپ نوجوانوں نے مل جل کر نیا دن نکالا ہے اسی طرح ہم بوڑھوں نے مل جل کر امروز بند کرایاتھا‘‘
اسی طرح ایک مرتبہ امروز کی بندش کے اسباب پر بات کرتے ہوئے کہنے لگے
’’ بھئی امروز کیا چلتا، ہمارے ہیڈ کاتب کی آنکھوں میں موتیا اتر آیا اور چیف رپورٹر اونچا سنتے تھے‘‘
یہ اور ایسی بہت سی خوبصورتیاں اقبال ساغر صدیقی کی شخصیت کا حصہ تھیں۔ وہ ملتان کی صحافت اورادب کا معتبر حوالہ تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو اس شہر کی پہچان ہیں ۔جنہوں نے اس شہر کو خوبصورت بنایا۔ شہر ایسی ہی نابغۂ روزگار شخصیات کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ مجھے کہنے دیجئے کہ شہروں کو بلندو بالا عمارتیں،میٹرو بسیں اور فلائی اوورز نہیں اقبال ساغر صدیقی جیسی شخصیات خوبصورت بناتی ہیں۔
اقبال ساغر صدیقی ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے ہمیں لکھنا سکھایا۔ ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا اور راستہ بھی دکھایا۔ میں ہمیشہ اعتراف کرتا ہوں کہ اگر اقبال ساغر صدیقی میری پہلی تحریر شائع نہ کرتے تو مجھ میں دوسرا مضمون تحریر کرنے کا حوصلہ نہ ہوتا۔وہ میرے محسن تھے۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں اقبال ساغرصدیقی، نوشابہ نرگس اور مرزا ابن حنیف کی وجہ سے ہوں۔ یہ سینئرز میرے بے ربط مضامین اور ٹوٹی پھوٹی غزلیں شائع نہ کرتے تو شاید میں آج کسی محکمے میں کلرک یا زیادہ سے زیادہ کوئی افسر ہوتا۔ ممکن ہے رشوت بھی لے رہا ہوتا۔ ساغر صاحب میں آپ کا آپ کی محبتوں کا قرض کبھی بھی نہ چکاسکوں گا۔
تاریخِ وفات 2جنوری 2012ء