اس کی سرخ انگارہ آنکھوں سے بہتے آنسوؤں میں چشموں سا شور نہیں بلکہ کسی مہیب دریا کی سی خاموشی تھی جو اپنے اندر نہ جانے کتنے سیلاب سموئے بہے جا رہا ہو۔ اس نے کپکپاتے ہونٹوں سے میرے ماتھے کا بوسہ لیا اور جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کے قدم بے جان بھی تھے اور شکست خوردہ بھی اور بالآخر کسی دیمک زدہ درخت کی طرح اس کا جسم ہوا میں لہرایا اور میرے پہلو میں زمین پر آ رہا۔۔۔۔۔۔
اپنے زانوں پر رکھے اسکے سر پر کمان بنی بیٹھی ،میں کسی گہری سوچ میں گم ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
"کہاں کھو گئی ہو”؟
اس نے اپنے ماتھے پر رکھا میرا ہاتھ تھامتے ہوئے محبت سے سرشار لہجے میں پوچھا۔۔۔۔۔۔
” تُم میں”
میں نے اُس کی نگاہوں میں دُور تک جھانکتے ہوئے مختصر جواب دیا۔
"اچھا جی! تو بھلا کیسے ڈھونڈ نکالا جائے آپ کو ہم میں سے؟”
اس نے میری انگلیوں میں اپنی انگلیاں سموتے ہوئے نم آنکھوں میں مسکراہٹ بھر کر کہا۔۔۔۔۔
"یہی سوچ رہی ہوں”
میں نے ایک بار پھر مختصر جواب دیا اور اپنی سوچوں کے سمندر میں پھر سے اُتر گئی۔۔۔۔
بھلا کب آسان تھا ، گھنیرے جنگل سی اسکی لامتناہی ذات میں سے اپنا مٹھی بھر وجود کھوج لانا ، اسکے سرسبزو شاداب وجود کے سائے میں رہ کر ہی تو میں زمانے بھر کی تپش سے محفوظ تھی۔ اس ایک شخص کی صحبت میں میری پوری کائنات سمائی تھی۔ اس کا ساتھ اتنا بھرپور تھا میرے لیے کہ میں آس پاس کی دنیا سے بے نیاز ہو چکی تھی۔ میرے لیے تمام تر احساسات کا محور یہی ایک ذات ہی تو تھی۔ جہاں سے باہر نکلنے کا تصور بھی مجھے اس طرح خوفزدہ کر جاتا تھا کے جیسے کوئی ننھا بچا گھر کی محفوظ چار دیواری سے باہر نکلتے وقت جھجکتا ہو۔۔۔۔۔۔
اُس کے جسم و روح کی بھول بھلیوں میں اسقدر کھو چکی تھی کہ نہ منزل کی خبر تھی نا ہی واپسی کا پتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحرحال راستہ تو ڈھونڈنا ہی تھا، کیوں کے واپسی طے تھی”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔