"شی۔۔۔۔چپ کر جا۔ کسی کو نہیں بتانا یہ بات۔ لوگ کیا سوچیں گے۔ ہم عزت دار لوگ ہیں۔” ماں نے 9 سالہ سندس کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
"مگر ماں۔۔۔۔”بچی نے دبائی آواز کے اندر سے ہی کچھ کہنا چاہا۔
"نہیں نہیں۔۔۔کچھ نہیں کہنا۔۔۔قاری صاحب کو نکال دیا ہے گھر سے۔ اب وہ دوبارہ نہیں آئیں گے۔ مگر تو نے یہ بات کسی کو نہیں بتانی، سمجھی نا۔”
"ماں۔۔۔۔۔”بچی نے ماں کا ہاتھ پرے کرتے ہوئے کچھ کہنا چاہا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو، چہرے پر زردی اور آواز میں لڑکھڑاہٹ تھی۔ وہ چیخیں مارنا چاہتی تھی مگر یہ کیسے اپنے تھے جو اس کا ساتھ دینے کی بجائے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ رہے تھے۔
"ماں۔۔۔۔”سندس نے زبردستی ایک دفعہ پھر سے ماں کو پکارا۔ وہ کچھ کہنے کے لائق تو نہیں تھی مگر آنکھوں سے بہت کچھ کہہ رہی تھی۔ بار بار ماں کو پکارنے سے اس کو لگتا تھا کہ شاید ماں سن لے مگر ایسا نہیں ہوا۔ وہ جب ماں کا نام لیتی ماں اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتی۔ وہ منت کرتی رہی، کبھی زبان سے کبھی آنکھوں سے مگر کسی نے اس کی ایک نہ سنی۔ گھر کی سب خواتین ایک بند کمرے میں بچی کو لے جا کر ایک ہی بات کر رہی تھیں۔۔۔”بس کسی کو نہیں بتانا۔۔۔”
"مگر قاری ۔۔۔۔”بچی نے سہمی سی آواز میں کچھ کہنا چاہا۔
"کیا مگر قاری۔۔۔۔اس کی کیا غلطی ہے۔ مرد تو سارے ایک سے ہی ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں لڑکی کو شرم کرنی چاہیے۔ نہ تو اس کے سامنے ہنستی ڈولتی نہ وہ یہ۔۔۔۔” بڑی خالہ نے سخت لہجے میں ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا۔
سندس نے حیرانی سے ایک نظر ان کو دیکھا، پھر ایک نظر اپنی ماں پر ڈالی جو منہ لٹکا کر نیچے دیکھ رہی تھیں پھر باپ کی تصویر کو دیکھا۔وہ باپ کو بتانا چاہتی تھی مگر اسے بتانے کون دیتا۔
ماں شاید اس کے دل کی بات سمجھ گئی تھی اس لئے گویا ہوئی۔”دیکھ مردوں کو ایسی بات نہیں بتانی۔خواہ مخواہ وہ غصے میں آ جائیں گے پھر کیا جانے کیا خون خرابہ ہو جائے۔کیا تو یہ چاہتی ہے؟”
"نہیں ماں” اس نے دھیمی سی آواز میں کہا۔پھر بولی” مگر قاری۔۔۔۔”
"نہیں نہیں کچھ نہیں بولنا اب۔۔۔ہمارے گھروں میں لڑکیاں شور نہیں مچاتیں۔” نانی نے بھی ماں کا ساتھ دیا اور بڑٰی بے رحمی سے اس کی بات کاٹ دی۔پھر اس کو کمرے سے نکال دیا گیا اور گھر کی بڑی بوڑھیاں سر جوڑ کر بیٹھ گئیں۔ سندس کو لگا کہ شاید مسئلے کا کچھ حل نکلے گا مگر میٹنگ ختم ہوئی تو پتہ چلا کہ اس میں "بات” دبانے کے طریقے ہی نکالے گئے۔باقی کیوں ہوا، کیسے ہوا، سندس پر کیا اثر پڑا، اس پر کیا گزری اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں تھا۔ ماں کو بھی نہیں۔
اس سے بچی کو زیادہ فرق نہیں پڑا بس یہ ہوا کہ اس نے ایسی ہر بات دبانا سیکھ لی۔اسے جہاں نظر آتا کہ گھر کی "عزت” کو دھبہ لگنے کا خطرہ ہے وہ بات کو دبانے لگی اور اسی کو ٹھیک سمجھنے لگی حتیٰ کہ اس کی عمر 16 سال ہو گئی۔
سندس نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا تھا۔ اب اس کے کالج جانے کے دن تھے۔ میٹرک تک تو ماں باپ نے وین لگوا کر دے رکھی تھی مگر اس کے دیگر بہن بھائیوں کو بھی پڑھانے اور ان کے خرچے پورے کرنے کے لیے انہوں نے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے کا کہا۔
"بیٹا چلی جاؤ گی نا ویگن میں آپ؟” ابا نے بہت پیار سے پہلے دن پوچھا۔
"جی ابا،اس میں کیا مسئلہ ہے” اس نے جواب دیا۔
"اچھا ٹھیک ہے بیٹی دیکھو دھیان سے جانا۔ کوئی مسئلہ ہو تو مجھے کال کر لینا۔”
"جی ابا۔ ٹھیک ہے۔” سندس نے خوشی خوشی ویگن میں چڑھتے ہوئے جواب دیا۔
راستہ کافی لمبا تھا اور ایک ویگن سے اتر کے دوسری میں بیٹھنا بھی عذاب تھا مگر مجبوری تھی۔ اسے پڑھنا تو بہرحال تھا ہی۔ اتنی مشکل سے اچھے کالج میں داخلہ ملا تھا اب دوری کا رونا نہیں رونا چاہتی تھی وہ ۔سو بڑے صبر و تحمل اور خوشی سے سفر طے کرنے لگی۔ ایک ویگن سے اتر کر دوسری کا انتظار کرتے کرتے پانچ منٹ گزر گئے مگر کوئی گاڑی آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
"اف پہلے دن ہی دیر سے پہنچوں گی تو کیا اثر پڑے گا استاد پر۔ سارا امپریشن ہی خراب ہو جائے گا۔ ٹیکسی بھی نہیں کر سکتی اتنے پیسے کون دے گا۔ کیا کروں۔” اس نے سوچا۔جب کچھ بن نہ پڑا تو سامنے سے آنے والی پہلی ہی ویگن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا جو پہلے سے بھری تھی۔
” آپ آگے آ جائیں۔”ڈرائیور نے عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہوئے اسے کہا۔
سندس کو تھوڑی حیرت ہوئی کہ ڈرائور نے اگلی سیٹ پر بیٹھی بوڑھی اماں کو پیچھے بھیج کر اسے آگے بیٹھنے کی آفر کیوں کی۔ مگر اسے اس سے کیا غرض تھی اسے تو صرف جلدی کالج پہنچنا تھا یہی سوچ کر وہ آگے بیٹھ گئی۔
"آپ روز ادھر ہی سے جاتی ہیں کالج؟” ڈرائیور نے سندس کو کالج کے پاس اتارتے ہوئے کہا
"جی” اس نے جواب دیا
"بس آپ میرے ساتھ ہی چلی جایاکریں۔ میں بھی اسی ٹائم اس راستے سے گزرتا ہوں۔” ڈرائیور نے خواہ مخواہ دانت نکالتے ہوئے کہا۔
"جی” سندس نے جلدی سے اترتے ہوئے کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھریہ بات آئی گئی ہو گئی مگر ایک دن شہر میں ہڑتال کی کال دی گئی۔ یہ سندس کی چھٹی کا وقت تھا۔ سب بچیوں کے ماں باپ انہیں لینے آئے ہوئے تھے مگر اس کے بابا سندس کو لینے جاتے یا چھوٹے بچوں کے سکول جاتے۔ اسے اس بات کی سمجھ تھی۔ وہ جانتی تھی ہڑتال ہو، دھوپ ہو یا بارش اسے خود ہی آنا جانا تھا۔
"آج تو ٹیکسی بھی نہیں چل رہی ۔۔۔کیا کروں۔۔۔اور کتنا چلوں۔ ٹیکسی مل جائے تو کم از کم آدھ راستہ ہی آسان ہو جائے۔” اس نے خود سے سوچا۔ "اف ہر راستہ بلاک ہے۔اللہ جانے ملک کے حالات کب بدلیں گے۔ عام آدمی کی زندگی ہی مشکل کر ڈالی۔” چلتے چلتے وہ اس روڈ تک پہنچی جہاں پھر بھی کوئی ایک دو گاڑی، بسیں چل رہی تھیں۔
"باجی آئیں آپ کو چھوڑ دیں۔” پیچھے سے آتی ایک ویگن اس کے قریب آ کر رکی۔ یہ وہی وین والا تھا جو اسے پہلے دن ملا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔
"نہیں بھیا” اس نے منع کیا۔
"پر جائیں گی کیسے۔ کوئی گاڑی نہیں چل رہی۔” ویگن والے نے خبردار کرتے ہوئے کہا۔
"میں چلی جاؤں گی جی” ڈرائیور کی آنکھیں دیکھتے ہوئے اس نے جواب دیا۔”ابھی آتی ہو ہو گی کوئی گاڑی۔”
"مرضی جی” ڈرائیور نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔
وہ کافی دیر سڑک پر انتظار کرتی رہی مگر نہ کوئی گاڑی آئی نہ ٹیکسی۔ اب ابا کو کال ملائی تو سگنل بھی بند ہو چکے تھے۔ "کیا ڈرامہ ہے۔” وہ بے انتہا ڈری۔ پھر حواس کو بحال رکھنے کے لیے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ وہی گاڑی والا کھڑا سامنے کھڑا تھا۔مرتی کیا نہ کرتی۔ دیر زیادہ ہو رہی تھی سوچا چلو کم از کم منزل تک تو پہنچائے گا ۔مگر یہ اس کی بھول تھی۔ راستوں پر ملنے والے اکثر منزل پر پہنچانے والے نہیں منزل سے دور کرنے والے ہوتے ہیں۔ڈرائیور نے ہڑتال، سنگل بند ہونے اور بچی کے اکیلے ہونے کا خوب فائدہ اٹھایا تھا اور اسے یہ بھی پتہ تھا کہ وہ ایک ”باعزت“ گھرانے کی بچی ہے۔ اپنی "عزت“ کے لیے کسی کو کچھ نہیں بتائے گی!
فیس بک کمینٹ