پاکستان بھی دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جن کو سنجیدہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے۔پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے 12 ممالک میں شامل ہے۔پاکستان میں آنے والے سیلاب ، طوفان اور خشک سالی کو اسی ماحولیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2050 تک پاکستان اور بنگلہ دیش کی ایک بڑی آبادی ایسے مقامات پر رہ رہی ہوگی جہاں ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات بہت زیادہ ہوں گے۔
یہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا ہی اثر ہے کہ پاکستان میں موسم کی شدت میں اضافہ ہوچکا ہے۔گرمیوں کا دورانیہ بڑھ چکا ہے جبکہ سردیوں کا دورانیہ کم ہوچکا ہے لیکن سردی کی شدت میں اضافہ ہوچکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے پانی کے گلیشٸیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔اس کی ایک اور وجہ بھی بتاٸی جا رہی ہے ماہرین کے مطابق 2007 سے سورج میں ایک قطب پیدا ہوچکا ہے اور پاکستان میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کو بھی اسی کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے شمال میں کوہ ہمالیہ ،کوہ قراقرم اور کوہ ہندوکش واقع ہیں اور یہی سلسلے ہیں جہاں قطب شمالی اور قطب جنوبی کے برف کے سب سے بڑے ذخائر گلیشیرز کی صورت میں موجود ہیں۔موسمیاتی تبدیلیوں کا نشانہ بننے والے یہ گلیشئیرز بھی بہت تیزی سے پگھل رہے ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ گیشئیرز پگھل گئے تو پاکستان کے میٹھے پانی کے بڑے سر چشمے ختم ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں پاکستان کو خشک سالی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے .ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کو جس عظیم مصیبت کا سامنا ہے وہ پاکستان کا آبی بحران ہے۔گوکہ ماحولیاتی تبدیلیاں پاکستان میں آبی بحران کی تنہا ذمہ دار نہیں لیکن پھر بھی اس بحران میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا بڑا حصہ ہے۔پاکستان اسوقت پانی کے بحران کے خطرے سے دوچار ہے۔ اگر عالمی اداروں کی بات کی جائے تو آئی ایم ایف یعنی عالمی مالیاتی فنڈر کے مطابق پانی کے شدید بحران کے خطرے سے دوچار ہونے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے یونائیٹڈ نیشن ڈویلپمنٹ پروگرام اور آبی ذخائر کی تحقیق کے لیے پاکستان کونسل برائے ریسرچ کا دعوی ہے کہ 2025 تک پاکستان سمیت جنوبی ایشا کے متعدد ممالک میں پانی کا بحران سنگین شکل اختیار کر سکتا ہے۔اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق پاکستان کا کوئی بھی علاقہ پانی کے بحران سے نہیں بچ پائے گا۔ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ 2040 تک پاکستان کو پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔موجودہ صورتحال میں متعدد عالمی ادارے پاکستان کو خبردار کر رہے کہ اگر پاکستان نے اس حوالے سے خاطر خواہ اقدامات نہ کیے تو پاکستان بڑی مشکل سے دوچار ہو سکتا ہے۔کچھ ماہرین پانی کے خطرے کو پاکستان کے لیے دہشتگردی سے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔
حال ہی میں شہر کراچی کو پانی کے سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ کراچی کو پانی مہیا کرنے والی مچھ جھیل کا کوئی پرسان حال نہیں۔ جس میں ایک مسئلہ تو پانی کا حصول تھا اور دوسرا مسئلہ صاف پانی کی عدم دستیابی تھی۔ اس باعث اہل کراچی کو کس حال سے گزرنا پڑا وہ تو ہم نے دیکھ ہی لیا ، خدا نہ کرے کہ پاکستان کے ہر شہر کو اس حال سے گزرنا پڑے۔۔
گزشتہ سال پانی کے بحران کی آواز اس وقت بلند ہوٸی جب سوشل میڈیا پر پانی کے بحران کے پیش نظر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی مہم چلائی گئی جس کے بعد یہ معاملہ ایوان تک پہنچا اس پر بھرپور مباحثے کیے گئےاور ڈیم بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا حتی کہ پیپلز پارٹی نے بھی کالاباغ ڈیم پر نرمی دکھائی اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنماوں کا کہنا تھا کہ اگر کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے سندھ کے حصے کا پانی متاثر نہ ہو تو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے سوچا جا سکتا ہے۔بعد ازاں خورشید شاہ نے ایک بار پھر اپنے پرانے موقف کو دہراتے ہوئے کالاباغ ڈیم کو سازش قرار دے دیا۔ڈیم کی تعمیر کے معاملے پر جوش و خروش اس وقت بڑھا جب سپریم کورٹ نے اس معاملے میں مداخلت کی اور ڈیموں کی تعمیر کے لیے فنذ اکٹھا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی زیرنگرانی بینک اکاونٹ قائم کردیا جس میں عوام و خواص نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔اس قدر عطیات کا آنا اس بات کی نشاندہی تھی کہ عوام میں آبی بحران سے متعلق شعور پیدا ہوچکا ہے جو آبی بحران سے نمٹنے میں کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔
پانی کے بحران کو سمجھنے کے لیے ہمیں مختلف پہلووں پرغور کرنا ہوگا۔ماحولیاتی تبدیلیوں ، آبی ذخائر کے تعمیر نہ ہونے کے ساتھ ساتھ پانی کا غیر ذمہ دار استعمال بھی پانی کے بحران کی طرف لے جانے میں اہم کردارادا کررہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ حکومتی ذمہ داران اس بات کے قائل ہو چکےہیں کہ پانی کے استعمال کے موجودہ طریقہ کار کو تبدیل نہ کیا گیا اور اس کے ضیاع کو نہ روکا گیا تو پانی کا بحران مزید شدت اختیار کرسکتا ہے۔اس حوالے سے ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر پانی کے موجودہ ذخائر کی صورتحال اور پانی کا طریقہ استعمال تبدیل نہ کیا گیا تو پانی کا بحران ٹالنا مشکل ہوجائے گا۔
پاکستان میں شرح پیدائش بھی پانی کے بحران کی وجہ بن رہی ہے۔یقینا آپ یہ سوچ رہے ہوں گےکہ شرح پیدائش کا پانی کے بحران سے کیا تعلق ہے۔اس کے لیے ہم کچھ اعداد و شمار کا سہارا لیتے ہیں۔1981 تک ہمارے پاس پانی وافر مقدارمیں موجود تھا اس وقت پاکستان میں آبی ذخائر کی صورتحال کے مطابق فی کس 2123 مکعب میٹر پانی موجود تھا۔1998 کی مردم شماری کے مطابق ہماری آبادی 13 کروڑ سے تجاوز کر چکی تھی جبکہ آبادی میں اضافے کی شرح 2.6 فیصد تھی جس کے باعث فی کس پانی 1351 مکعب میٹر تک پہنچ گئی۔2013 کے ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے نے بتایا کہ پاکستان میں شرح پیدائش 3.8 پر رکی ہوئی ہے جبکہ دیگر ممالک میں یہ شرح تیزی سے کم ہو رہی تھی اور وہ ممالک 2۔2 تک پہنچنے کی طرف گامزن تھے۔2017 کی مردم شماری نے یہ ثابت کیا کہ ہم واقعی پانی کے بحران کی طرف جا رہے ہیں اور ہمارے پاس فی کس پانی 861 مکعب میٹر رہ گیا ہے ۔یہی اگر ہم نے اپنی شرح پیدائش پر قابو پا لیا ہوتا اور بہترین پالیسی کے تحت 1.6 تک رک جاتے تو اب ہمارے پاس 1000 مکعب میٹر فی کس پانی موجود ہوتا ۔
اس کے علاوہ بھارت کی آبی دہشتگردی بھی پاکستان میں آبی بحران پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔پاکستان کا 85 فیصد پانی مقبوضہ کشمیر اور بھارت سے آتا ہے۔ بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاوں پر ڈیم بنا رہا ہے۔دوسری طرف وہ افغانستان کو دریائے کابل پر بننے والے ڈیم کے لیے سرمایہ فراہم کررہا ہے۔بھارت کی یہ آبی دہشتگردی جاری رہی اور پاکستان نے اس ضمن میں اقدامات نہ اٹھائے تو اس کا نقصان خشک سالی اور شدید آبی بحران کی صورت میں سامنے آئے گا۔
پاکستان کو آبی بحران سے نمٹنے بہت سے اقدامات کرنا ہوں گے جن میں آبی ذخائر کی تعمیر کے ساتھ ساتھ پہلے س موجود آبی ذخائر کے سٹرکچر کو بہتر بنانا ہوگا۔بھارت کو آبی دہشتگردی سے روکنے کے خاطرخواہ اقدامات کرنے ہوں گے اور عالمی دباؤ کے ذریعے بھارت کو مجبور کیا جائے کہ وہ سندھ طاس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل کرے۔اس کے ساتھ ساتھ شرح پیدائش پر قابو پایا جائے۔
اس ساری صورتحال میں سب سے اہم ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے اہم کردار اداکریں اور اپنے اہلخانہ میں پانی کے استعمال کے حوالے سے شعور بیدار کیا جائے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے پانی بچا سکیں۔