اگر یہ کہا جائے کہ شنگھائی تعاون تنظیم یعنی ایس سی او سربراہ کانفرنس میں پاکستانیوں کے لیے سب سے بڑی خبر بھارت کے وزیر خارجہ کی پاکستان کے وزیر اعلیٰ سے غیر رسمی ملاقات تھی تو یہ با لکل بھی غلط نہ ہو گا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر سمیت متعدد مسائل ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں رکاوٹ ہیں۔ دونوں ممالک میں شدید سیاسی دباؤ کے باعث ان ممالک کی قیادت بھی کسی قسم کی لچک دکھانے سے باز رہتی ہے۔ یہی نہیں دونوں جانب سے انتخابات کے دوران مخالف جذبات کو شہہ دے کر ووٹ بینک مضبوط کرنا بھی پاکستان اور انڈیا کے تعلقات پر دباؤ میں اضافہ کرتا ہے ۔اس بات کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 2021 میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی روابط بحال کرنے کا فیصلہ کیا مگر چند ہفتوں بعد ہی اپنا ارادہ تبدیل کر لیا ۔
تاہم ایک بات یقیناً خوش آئند ہے کہ اس تمام تر تناؤ کے باوجود حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی مکمل پاسداری کی گئی۔ یہی نہیں دونوں ممالک اپنی جوہری تنصیبات کی فہرستوں کے تبادلہ سمیت اپنی سفارتی ذمہ داریاں بڑے احسن طریقے سے انجام دیتے رہے۔ مزید برآں دونوں ممالک کی جانب سے ویزا کی فراہمی میں ماضی جیسی تلخیاں بھی دیکھنے کو نہیں ملیں۔
لیکن کیا یہ سب کافی ہے؟
جواب سیدھا سادھا سا ہے کہ پاک بھارت تعلقات اس وقت نچلی ترین سطح پر ہیں۔جب اسلام آباد میں ایس سی او سربراہ اجلاس کا آغاز ہوا تو دو مہمان میڈیا کی توجہ کا مرکز رہے۔ ایران کے پہلے نائب صدر محمد رضا عارف اور بھارت کے وزیر برائے خارجہ امور سبرامنیم جئے شنکر ۔
ایران کا تو سمجھ میں آتا ہے کہ ان کا کوئی وزیر اعظم نہیں تاہم بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کی اجلاس میں عدم شرکت چہ میگوئیوں کا باعث رہی ۔
مبصرین کا خیال ہے کہ نریندر مودی اس اجلاس میں شرکت سے اپنے ووٹ بینک کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتے تھے کہ وہ پاکستان کے ساتھ نرم رویہ رکھے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی بھارت کے چین سے کشیدہ تعلقات کے باعث وہ اس موقع پر مغرب کی خوشنودی بھی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ چین بہر حال مغرب کو بری طرح کھٹکتا ہے۔
ایس سی او کے قیام کو قریب تین عشرے بیت چکے ہیں۔ اس تنظیم کے قیام کا بنیادی مقصد ممبر ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات کو حل کرنا اور سکیورٹی خدشات کو رفع کرنا تھا۔ یمن ، روس ، قازقستان ، کرغزستان اور تاجکستان پر مشتمل ‘شنگھائی فائیو’ میں اب انڈیا ، پاکستان اور ایران بھی شامل ہو چکے ہیں. یہ نمائندہ تنظیم اب دنیا کی قریب چالیس فیصد آبادی پر مشتمل ہے جس کا جی ڈی پی عالمی جی ڈی پی کے ایک چوتھائی سے زیادہ ہے۔
2011 میں اس تنظیم نے خوش اسلوبی سے تمام علاقائی تنازعات کو حل کیا اور علاقائی سلامتی پر اپنی توجہ مرکوز کی۔
پاکستان اور بھارت نے 2017 میں تنظیم کی رکنیت حاصل کی۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب سرحدی تنازعات کو حل کرنا ایس سی او کے بنیادی مقاصد میں تھا تو پاکستان اور بھارت کے معاملہ پر یہ فورم کسی بھی قسم کی پیش رفت سے گریزاں کیوں ہے؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ دونوں جوہری طاقتوں کی قیادت کسی تیسری حکومت کو مداخلت کی اجازت دینے کو تیار نہیں ۔
1972 کے "شملہ معاہدہ” اور 1999 کے "لاہور اعلامیہ” میں پاکستان اور بھارت نے واضح طور پر باہمی سفارتکاری سے مسائل کے حل پر زور دیا تھا ۔ مزید برآں علاقائی سلامتی کے مسئلہ پر بھی دونوی ممالک کی آراء میں واضح فرق موجود ہے ۔
شنگھائی تعاون تنظیم یعنی ایس سو او کے فورم پر دونوں ممالک کی جانب سے باہمی اعتماد میں کمی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں چین کے فورم کو ایک خاص حد سے بڑھ کر اہمیت دینے کو مغرب کے مفادات سے متصادم سمجھتے ہیں۔
2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے بعد پاکستان یہ بھی سمجھتا ہے کہ سفارتی سطح پر کسی بھی قسم کی لچک کو حکومت وقت کی سیاسی کمزوری سمجھا جا سکتا ہے ۔
پاکستان کی دگرگوں معیشت اور لداخ میں انڈیا کی سکیورٹی کے بڑھتے چیلنج، جنوبی ایشیا میں علاقائی سلامتی کے لئے پیچیدگیوں میں اضافہ کا باعث ہیں ۔ ایسے میں بڑے پیمانے پر کثیر الجہتی سفارتکاری ہی جنوبی ایشیا میں افلاس زدہ انسانیت کے لئے کسی راحت بخش سمت کا تعین کر سکتی ہے۔
( بشکریہ : ماہنامہ پاکستان افیئرز )
فیس بک کمینٹ