1974ءمیں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کا سہرا پاکستان کے مقبول ترین عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کے سر جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ جس دور میں بھٹو صاحب پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کے نقشے پر سیاسی حوالے سے جگمگا رہے تھے۔ لاہور میں اس کانفرنس میں مرحوم یاسر عرفات ، کرنل قذافی ، صدر صدام حسین ، شاہ فیصل جیسے اسلامی حکمرانوں نے شرکت کی یہ بھٹو مرحوم کا ہی قائدانہ فیصلہ تھا جن کو ایک ٹیبل پر بٹھا کر پاکستان کا پرچم پوری دنیا میں بلند کیا۔ الحمدللہ آج پھر پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت کے طور پر اُمت مسلمہ کو لیڈ کررہا ہے۔ 28مئی کو اُس وقت کے وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کے دور میں ایٹمی دھماکہ کرکے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیاگیا۔ بھٹو مرحوم کو پھانسی دیدی گئی۔ سائنسدان عبدالقدیرخان کو اذیت میں مبتلا کرکے اس قدر رکھا کہ آخرکار مرحوم خالق حقیقی سے جا ملے۔ پھر اُمت مسلمہ کی پہلی مقبول ترین لیڈر وزیراعظم شہید محترمہ بینظیربھٹو کوگولی مار کر ہمیشہ کیلئے جمہوریت کی شمع کو ابدی نیند سلا دیاگیا۔پھر اُس بی بی کا روشن چراغ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کو PDM کی حکومت میں پاکستان کے وزیرخارجہ کا قلمدان سونپا گیا۔ بلاول بھٹو نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر پوری دنیا کو باور کرایا کہ اُمت مسلمہ الحمدللہ ایک امن پسند ایٹمی طاقت ہے اور ہمارے عزائم امن‘ ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات پرمبنی ہیں۔ اس کم عمرنوجوان وزیرخارجہ نے پاکستان کے وقار کوایک روشن پاکستان اور پر امن پاکستان کے طور پر پیش کیا۔
آج پھر موجودہ وزیراعظم پاکستان میاں شہبازشریف گو سابق وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کی سرپرستی میں اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں لیکن اس کا تمام تر سہرا وائس چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی موجودہ صدرمملکت خدادا پاکستان آصف علی زرداری کوجاتا ہے جن کی قائدانہ صلاحیت اور مشاورت کو بروئے کار لا کر پاکستان نے شنگھائی کانفرنس کا انعقاد کردیا۔
شنگھائی تعاون کانفرنس میں شرکت کرنے والے معزز سربراہان مملکت کی موجودگی آرمی چیف عاصم منیرکی خوددارانہ اور دلیرانہ سرپرستی کہا جاسکتا ہے۔اس کانفرنس میں پاک چین دوستی ایک تاریخ ساز دوستی ہے جس کے وزیراعظم اس کانفرنس میں شرکت کرنے کیلئے پاکستان میں تشریف لاچکے ہیں۔نوازشریف اور شہبازشریف کی ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ دیرینہ دوستی کا شاخسانہ کہہ سکتے ہیں کہ دونوں ممالک میں کشمیر کے حوالے سے شدید ٹینشن پائی جاتی ہے لیکن وزیرخارجہ بھارت بھی اسی کانفرنس میں تشریف لاچکے ہیں اور دیگر مملکت خدادا د ہمارا برادر ملک سعودی عرب کے مشیران جنہوں نے اس کانفرنس سے پہلے ہی اپنے قدم جما کر پاکستان کو مختلف معاہدوں میں شامل حال کرکے ایک نئی معاشی تحریک کا آغاز کردیا ہے۔
باوجود اس امر کے کہ پاکستان میں مہنگائی کا دردناک عذاب بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ مگر آئی ایم ایف نے موجودہ وزیراعظم پر اعتماد کرتے ہوئے نئی قسط جاری کردی ہے۔ چینی وزیراعظم کی آمد سے پاکستان میں سی پیک اور گوادر پراجیکٹ پر دونوں دوستوں کا دیرینہ تعاون معاشی حوالے سے شامل حال رہا ہے۔ اُن کی آمد سے ایک نئے معاشی قدم کا اضافہ ہونے جارہا ہے۔ پاکستان کی باشعور عوام بخوبی آگاہ ہے کہ جس نے بھی پاکستان کے ساتھ وفاداری ‘سلامتی‘ تجارتی روابط قائم کرنے کی شروعات کی ہیں اُن صاحبان کے انجام سے پاکستان کی تاریخ اور عوام بخوبی آگاہ ہیں۔ OIC کے ماضی کے کرداروں کو کس طرح منطقی انجام تک پہنچایاگیا ہے لیکن نظرآرہا ہے کہ اب پھر پاکستان خارجی‘ تجارتی حوالے سے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے جارہا ہے۔ لیکن باوجود اس گانے کے ……..کبھی خوشی کبھی غم….ابھی خوشی کے لمحات سے گزر رہے تھے کہ شنگھائی تعاون کانفرنس پاکستان میں منعقد ہوچکی ہے لیکن پاکستان کے اندرونی حالات جوں کے توں ہیں۔
فیس بک کمینٹ