بلوچستان میں گوادر کے علاقے پشیکان میں کل 10 مزدوروں کو قتل اور 3 کو زخمی کر دیا گیا۔ جب بھی قومیت کی آڑ میں مزدوروں کا قتلِ عام ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی مزدور طبقے کی دشمن قوم پرستی کی فکری، سیاسی اور اخلاقی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ جب کسی قوم کے قوم پرست کسی دوسری قوم کے مزدوروں کو غاصب قرار دے کر ان کا خون بہاتے ہیں تو باقی قوم کے قوم پرست چپ رہتے ہیں کیوں کہ مرنے والے مزدوروں کا تعلق ان کی اپنی قوم سے نہیں ہوتا۔ لیکن جب ان کی قوم سے تعلق رکھنے والے مزدور قتل ہوتے ہیں تو یہ چیخ پڑتے ہیں، سخت احتجاج کرتے ہیں اور دہائیاں دیتے ہیں کہ ان کی قوم کے ساتھ ہونے والے ظلم پر دوسرے لوگ خاموش کیوں ہیں؟ اس پر دوسری قوموں کے قوم پرست جوابا ًکہتے ہیں کہ جب ہماری قوم کے مزدور مرے تھے تب تم بھی تو خاموش تھے۔ ان میں سے ہر کسی کے دل میں "مزدور” کا درد اس وقت اٹھتا ہے جب وہ ان کی اپنی "قوم” کا ہو۔ اسی طرح جب کسی قوم کے علاقے میں کسی دوسری قوم کے مزدور اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کی مجبوری میں روزگار کے لیے آتے ہیں تو یہ ان مزدوروں کو سامراجی اور غاصب کہتے ہیں۔ انہیں دوش دیتے ہیں کہ وہ ان کی قوم کے مزدوروں کا حق مار رہے ہیں اور ان کے وسائل پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ اس لیے ان سے روزگار چھیننا، انہیں بے دخل کرنا اور حتیٰ کہ ان کا قتل بھی جائز ہے۔ لیکن جب ان کی اپنی قوم کے مزدور دوسری قوموں کے علاقوں میں روزگار کی تلاش میں جاتے ہیں اور ان قوموں کے قوم پرستوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں تو یہ احتجاج کا ایک طوفان کھڑا کر دیتے ہیں اور دہائیاں دیتے ہیں کہ ان کی قوم کے مزدوروں کے ساتھ بڑا ظلم کیا گیا ہے۔ انہیں مزدور اسی وقت "مظلوم” لگتا ہے جب وہ ان کی اپنی قوم سے تعلق رکھتا ہو۔ جب تک اپنی قوم کا مزدور اپنے قومی خطے میں بیروزگار ہو، یا اپنی قوم کے زمیندار، سرمایہ دار یا تاجر کے استحصال کا شکار ہو یا پھر کسی دوسری قوم کے علاقے میں معاشی جبر کا شکار ہو تب تک قوم پرستوں کو اس کے ساتھ جاری طبقاتی اور معاشی ظلم دکھائی نہیں دیتا لیکن جب دوسری قوموں کے مزدور ان کے علاقے میں روزگار کے لیے آتے ہیں تو انہیں اپنی قوم کے مزدور کے حقوق اور اس کے ساتھ ناانصافیاں یاد آ جاتی ہیں۔ دوسری قوموں کے مزدوروں کی آمد انہیں اپنی قوم کے مزدوروں کے حقوق اور ان کے لیے انصاف کی یاد دلاتی ہے۔ قوم پرستی کسی خطہِ زمین اور اس کے وسائل کی "نجی ملکیت” کے سرمایہ دارانہ، مڈل کلاس نظریے سے زیادہ کچھ نہیں۔ بنگال نے قومی آزادی لے لی لیکن بنگالی مزدور اور کسان طبقے آج بھی بنگالی اور غیر ملکی سرمایہ دار اور تاجر طبقے کے غلام ہیں۔ اپنی قوم کے حقوق اور وسائل کے لیے ظالم ریاست سے ٹکر لینے والے یہ قوم پرست ایک جانب اپنے قومی خطے میں موجود دوسری قوموں کے مزدوروں سے روزگار چھیننے، انہیں بے دخل کرنے یا ان کا خون بہانے کی مہم چلاتے ہیں جب کہ دوسری جانب دوسری قوموں کے علاقوں میں کام کرنے والے اپنی قوم کے مزدوروں کو دوسری قوموں کے حقوق غصب کرنے اور ان کے وسائل لوٹنے کا ذمہ دار قرار دینے کے بجائے الٹا ان کے حقِ روزگار کا دفاع کرتے ہیں اور اگر ان کے ساتھ یہی سلوک دوسری قوموں کے قوم پرست روا رکھیں تو اس برتاؤ کی مذمت اور مخالفت بھی کرتے ہیں۔ نہ ہی یہ قوم پرست دوسری قوموں کے علاقوں میں ظالم ریاست کے قائم کردہ سرکاری اداروں اور منصوبوں میں ملازمت کرنے والے اپنی ہی قوم کے افراد کی وہاں ملازمت، روزگار یا تعلیم کو اپنی قوم سے غداری سمجھتے ہیں۔ لیکن یہی کام اگر دوسری قوموں کے افراد ان کے قومی خطے میں قائم سرکاری اداروں میں کریں تو یہ اس عمل کی ہر طرح سے مزاحمت اور مخالفت کرتے ہیں۔ اپنی قوم کے افراد کے لیے اور دوسری قوم کے فرد کے لیے ان کے حقوق اور انصاف کے پیمانے متضاد ہیں۔
قوم پرستوں کے نزدیک مزدور کا مزدور اور مجبور ہونا کافی نہیں بلکہ یہ زیادہ ضروری ہے کہ وہ ان کی اپنی قوم کا فرد ہو۔ اگر دوسری قوم کا مزدور ان کے قومی علاقے میں روزگار کرے تو یہ انہیں منظور نہیں۔ البتہ اگر ان کی قوم کا مزدور دوسری قوموں کے علاقوں میں کام کرے تو انہیں اس پر اعتراض نہیں۔ ان کی قوم کے مزدوروں کا استحصال ان کی اپنی قوم کا امیر طبقہ کرے یا کسی دوسری قوم کا انہیں کوئی پریشانی نہیں۔ قوم پرستی ایک تنگ نظری ہے جو انسان کے جذبہِ انسانیت کو اس کی اپنی "قوم” تک محدود کر کے اسے ایک تنگ نظر انسان بنا دیتی ہے۔ یہ معاشرے میں ظلم، جبر اور ناانصافی کو صرف قومی سطح پر دیکھتی ہے اور قوموں کے اندر موجود امیر اور غریب، مالک اور ملازم، مزدور اور سرمایہ دار، جاگیردار اور کسان کی طبقاتی تفریق سے پیدا ہونے والے ظلم، ناانصافی اور استحصال کو نظر انداز کر دیتی ہے جو کہ ہر قسم کی معاشی، سیاسی اور سماجی ناانصافی کی بنیاد ہے۔ صرف مزدور طبقہ تمام قوموں کے مزدوروں کے طبقاتی اتحاد کے ذریعے ہی قومی اور دیگر تمام ناانصافیوں کا خاتمہ کرنے کا اہل ہے۔ قوم پرستی مزدوروں اور محنت کش عوام کے اس بین الاقوامی اتحاد کو تقسیم کرنے کے کا ایک ذریعہ ہے، اس لیے حکمران طبقہ مختلف طریقوں سے قوم پرستانہ سیاست کو ہوا دیتا رہتا ہے۔ طبقاتی شعور سے لیس ہر شخص کو قوم پرستی کے ذریعے مختلف قوموں کے مزدور طبقے اور محنت کش عوام میں پھوٹ ڈالنے اور تقسیم کی ان سازشوں کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور قوم پرستی کی مکمل اور بھرپور مخالفت کر کے اس کے طبقاتی کردار اور سیاسی منافقت کو بے نقاب کرنا چاہیے۔
(بشکریہ:حال حوال ۔کوئٹہ)
فیس بک کمینٹ