کہتے ہیں کہ عام طور پر سرکشی کا ایک ہی سبب ہوتا ہے اور وہ یہ کہ یا تو بندے کی بندے سے بندھی امید نہ پوری ہو یا پھر اس کے ساتھ وہ حال ہوا ہو جو کہ ہماری فرض شناس پولیس تھانے میں کسی ماڑے بندے کے ساتھ کرتی ہے ۔ سرکشی سے یاد آیا کہ آج کل ہمارے ملک میں بجلی کے سیاپے کے بعد ایک کتاب کی بڑی ڈھونڈیا مچی ہوئی ہے مزے کی بات یہ ہے کہ ابھی یہ کتاب مارکیٹ میں نہیں آئی۔۔ لیکن اس کے آنے سے پہلے ہی مخالفین اس کی دھوم پر جھوم رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ایک عجیب ہاہا کار مچی ہوئی ہے ایسا لگ رہا ہے کہ محل پر ٹوٹنے والی ہو قیامت جیسے -جو کبھی عزت تھی وہ بے عزت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ جس طرح ہمارے علماء کے مطابق اسلام ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے اسی طرح صاحبِ دستار کی دستار بھی خطرے میں بتائی جا رہی ہے شنید کے مطابق کتاب کیا ہے جدید کاما سوترا سے لبریز حکایتِ لذیذ ہے جس کے مندرجات کو پڑھ پڑھ کے چسکا بٹالین خوب چسکے لے رہی ہے جبکہ مضروب پارٹی جھولیاں بھر بھر کے بدعائیں دے ر ہی ہے کہ جا تیری کتاب میں کیڑے پڑیں ۔تیرا ککھ نہ روّے۔ ۔ ۔ تینوں لیوے مولا۔ ۔ جبکہ دوسری طرف غنیم بہت خوش ہے اور اسی خوشی کے عالم میں بغلیں بجا رہا ہے اور جس کے لئے بغلیں بجائی جا رہیں ہیں وہ اندرو اندری سر نہیوڑے منہ بسورے بظاہر نارمل بیٹھا زبانِ حال سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ میں نے پیار کیوں کیا او بے وفا۔
دوسری طرف بالشت بھر کے لوگ گز گز لمبی زبان نکالے لایعنی باتوں کی توپیں داغ رہے ہیں اور اس پر مُصر ہیں کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ کچھ دور کی کوڑیاں لا لا کر OLX پر دیئے بغیر ہی سرِ بازار بیچ رہے ہیں۔ لوگ باگ دھڑا دھڑ یہ منجن خرید رہے ہیں کہ یہاں وہی بِکتا ہے جو بَکتا ہے سچ کو جھوٹ دکھائی دے رہا ہے لیکن نشاندہی سے قاصر ہیں کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے کہ خلقتِ شہر کہنے کو فسانے مانگ رہی ہے۔
یہاں تک کہ گلی محلے کی مائیاں جو کہ اکھٹی ہو کر یا تو کسی تیسری کی برائیاں کرتی نظر آتی تھیں یا پھر محلے میں کمیٹیوں کی تقسیم پر گتھم گتھا ہوا کرتی تھیں وہ بھی سب بھول بھال کر سائنس کی باتیں کرتے ہوئے بڑھ چڑھ کر اسی کتاب کے بارے میں تبصرے فرما رہی ہیں اتفاق سے ایسی ہی ایک منڈلی سے میرا گزر ہوا تو وہاں پر محفل گرم تھی اور کتاب لکھنے کے اسباب پر درج ذیل دلائل دیئے جا رہے تھے ۔
ماسی شیداں کے مطابق صاحب نے ضرور میم صاحبہ کی کمیٹی کھائی ہو گی یا پھر ان کی کمیٹی کے پیسے لے کر واپس نہ کیے ہوں گے اسی لئے تو میم صاحبہ نے اس کتاب میں ایسی ایسی باتیں لکھ دیں ہیں جو کہ کمیٹی کے پیسے کھانے والے کے لیئے خود بخود دل سے نکل جاتیں ہیں۔
دوسری طرف ماسی داراں کے مطابق سنا ہے کہ صاحب بڑا کنجوس واقع ہوا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ میم صاحبہ کو کھانے کے لیے ایک روٹی اور آدھی پیالی چائے دیتا ہوجس سے میم صاحبہ کا پیٹ نہ بھرتا ہو اسی وجہ سے انہوں نے اپنی کتاب میں وہ باتیں لکھ دیں ہیں جو کہ عام طور پر بھوکا پیٹ ہی لکھا کرتا ہے۔
ماسی بلقیس جو کہ کافی عرصہ پہلے ایک بیوٹی پارلر میں بطور ہیلپر کام کرتی رہی ہیں ان کے مطابق یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صاحب نے میم صاحبہ کو بغیر میک اپ کے دیکھ لیا ہو ۔ اور انہیں اس حال میں دیکھ کر صاحب کی چیخیں نکل گئی ہوں اور پوچھنے پر اس بات کا تذ کرہ اپنے آس پڑوس کے لوگوں سے بھی کر دیا ہو۔ اس بات کا علم ہونے پر میم صاحبہ نے دل ہی دل میں سوچا ہو کہ اے توں چنگی نئیں کیتی۔ ۔۔ اسی لئے اب میم صاحبہ ، صاحب کو بغیر میک اپ کے بذ ریعہ کتاب سامنے لا رہی ہے۔
اسی اثنا میں ماسی گگڑی سر کھجاتے ہوئے کہیں سے نمودار ہوئی اور پوچھنے پر اسے جب موضوع کے بارے میں بتایا گیا تو وہ سر کھجاتے ہوئے کہنے لگی کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میم صاحبہ کے سر میں جوئیں پڑی ہوں اور صاحب نے انہیں صاف کرنے کا بولا ہو جبکہ میم صاحبہ کے خیال کے مطابق انہوں نے بڑی محنت کے ساتھ انہیں اکھٹا کیا تھا صاحب کے کہنے پر کیسے صاف کر دیں ؟ اس لیے عین ممکن ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو صاف کرنے کی بجائے صاحب کی طبیعت صاف کرنے کے لئے کتاب لکھ ماری ہو۔
کتاب لکھنے کے اسباب پر سب سے دل چسپ تبصرہ اس نیم نشئی ماسی کا تھا کہ جس کا نام تو کچھ اور تھا لیکن کثرتِ نسوار (کھانے ) کی وجہ سے سب انہیں ماسی نسواراں کہتے ہیں سب ماسیوں کی باتیں سننے کے بعد انہوں نے ایک نظر حاضرین پر ڈالی اور پھر نسوار کی چونڈی اپنے اوپر والے ہونٹ کے بیچ رکھ کر بولی پیاری بہنو یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میم صاحبہ کارتوس مارکہ ایف 16 نسوار کھاتی ہوں ۔ اور منع کرنے پر کہتی ہو کہ بیبا میں تمہیں چھوڑ سکتی ہوں لیکن کارتوس مارکہ ایف 16 نسوار کو نہیں چھوڑ سکتی اسی وجہ سے میاں بیوی میں ناچاقی پیدا ہو گئی ہو اور ہو سکتا ہے کہ اسی ناچاکی کے سبب میم صاحبہ نے صاحب جی کے سارے پردے چاک کرنے کے لیئے یہ کتاب لکھی ہو۔
۔