چیف جسٹس آف پاکستان ہو یا چیف آف آرمی سٹاف ، ادنیٰ و اعلیٰ، ہر عہدے پر فائز سرکاری افسر ، سرکار کا ملازم ہوتا ہے۔ جو بالآخر اپنی مدت ملازمت پوری ہو جانے کے بعد ریٹائرمنٹ کی چٹھی لے کرواپس اسی مقام پر جا کھڑا ہوتا ہے ،جہاں سے وہ اپنی زندگی کا عملی سفر شروع کرتا ہے۔اپنی چالیس سالہ ملازمت کے دوران ، میں نے یہ دیکھا ہے کہ بہت سے ”’صاحبان“‘اپنی متوقع ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنے ماتحتوں اوردیگر افراد کے ساتھ بہتر سے بہتر رویہ اختیار کرنے لگتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کا ادراک کر لیتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ،ان کا یہ بہتر رویہ ہی کسی قدر ان کا احترام باقی رکھے گا۔اور یہ بھی بہت دیکھا ہے کہ بعض افسران ، اپنی افسری کے گھمنڈ سے آخری لمحے تک باہر نکل ہی نہیں پاتے۔وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے عمل کو ذہنی طور پر تسلیم کر لینے پر آمادہ ہی نہیں ہوتے۔۔ خیر ۔ اس ضمنی ذکر کے ساتھ عرض یہ ہے کہ ملازمت سے ریٹائرمنٹ ، خواہ وہ کسی بھی اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے سے ہو، دنیا بھر میں ایک معمول کاعمل اور ادارے کی اندرونی کاروائی ہوتی ہے۔جس پر کہیں بھی اتنی بحث اور لے دے نہیں ہوتی ،جتنی ہمارے ہاں ہوتی ہے۔خاص طور پر، چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف کے عہدوں پر تعیناتی اور پھر ریٹائرمنٹ ، دونوں ہی ”’ہاٹ ٹاپکس“‘کے طور پر لیئے جاتے ہیں۔جانے والے پر سو ،سوطرح کی باتیں کی جاتی ہیں اور آنے والے سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لی جاتی ہیں۔حالانکہ ان دونوں اہم عہدوں پر فائز افراد بھی دیگر سرکاری ملازمین کی طرح سرکاری قواعد و ضوابط اور اپنے ادارے کے کوڈ آف کنڈکٹ کے پابند ہوتے ہیں۔۔مگر ہمارے ہاں، ان افراد کی ضرورت سے زیادہ پذیرائی ، یہ تاثر پیدا کر دیتی ہے کہ یہ ”’چیفس“‘ملک و قوم کے لیئے ناگزیر ہیں۔ چند حاشیہ بردار بھی یہ تاثر ابھارنے میں اپنا کردار خوب ادا کرتے ہیں۔جس کی وجہ سے”’چیفس“‘اکثر اوقات متعین کردہ کوڈ آف کنڈکٹ اور قواعد و ضوابط کو پس پشت ڈالتے ہوئے، ریاستی اور حکومتی معاملات میں دخل اندازی کو اپنا معمول بنا لیتے ہیں۔ سترہ جنوری کو اپنی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد ریٹائرہونے والے سابق چیف جسٹس ، ثاقب نثار پر ان کی ملازمت کے دوران بھی بہت تنقید ہوتی رہی ، اور ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بہت زیادہ تنقید ہو رہی ہے ۔شہرت بھی انسان کی دیگر بنیادی کمزوریوں کی طرح ایک کمزوری ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر دن رات کوریج کی وجہ سے سابق چیف جسٹس بھی اسی کمزوری کا شکار رہے۔۔
اب ان کی جگہ جناب آصف سعید کھوسہ ، چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے ہیں۔ایک چیف کی ریٹائرمنٹ اور دوسرے کی تعیناتی ایک معمول کی کاروائی ہونی چاہئے تھی۔ زیادہ سے زیادہ ، متعلقہ محکمے کا عملہ اور دونوں چیفس کے قریبی احباب ، ایک کے جانے اور دوسرے کے آنے پر جشن منا لیتے۔مگر یہاں تو پورے میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا ہے۔جناب آصف سیعد کھوسہ ، چیف جسٹس کا حلف لینے کے بعد سپریم کورٹ اپنے آفس میں آئے تو انہیں گارڈ آف آنرز پیش کیا گیا۔مجھے نہیں معلوم کہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسا ہوتا ہے۔مگر تبدیلی سرکار میں سادگی اور پروٹوکول فری ماحول کے وہ دعوے کیا ہوئے؟؟۔ گزشتہ تین چار روز سے کسی اور موضوع پر بات ہی نہیں ہورہی۔ ہر طرف ایک ہنگامہ برپا ہے ۔جناب آصف سعید کھوسہ صاحب کے اوصاف پر اوصاف بیان کئے جا رہے ہیں۔وہ ضرور مجموعہ اوصاف ہوں گے مگر جن ارادوں کا نئے چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ صاحب نے اظہار کیا ہے،کیاوہ صرف گیارہ ماہ کی قلیل مدت میں اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنا سکیں گے؟؟اگر وہ صرف عدالتی نظام کی اصلاح پر ہی فوکس کریں تو بھی گیارہ ماہ کی مدت میں لاکھوں تصفیہ طلب مقدمات کو انجام تک پہنچانا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔عام آدمی جس کاعدالتی نظام سے واسطہ نہیں پڑتا وہ اس کی پیچیدگی اور بگاڑ کا اندازہ ہی نہیں کر سکتا اور یہ کوئی چند ماہ و سال کا بگاڑ نہیں ہے”’یہ پون صدی کا قصہ ہے“‘۔اس پر مزید کچھ کہنے کی بجائے،صرف اتنا کہنے پر اکتفاءکرتا ہوں کہ جیسے تحریک انصاف کے چئرمین نے وزیر اعظم پاکستان کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے سب کچھ بدل دینے کا خواب قوم کو دکھایا تھا اور بعد ازاں وزیر اعظم کے منصب پر بیٹھنے کے بعد حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا ، تو ”’نہ جائے رفتن۔۔نہ پائے مانند“‘کی کیفیت سے دوچار ہیں۔یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ کو عدالتی نظام کے بگاڑ کاا دارک نہیں ہوگا۔مگر یہ تشویش ضرور ہے کہ وہ اپنے گیارہ ماہ کے عرصہ میں ، اپنے ارادوں کی تکمیل کر سکیں گے یا بقول منیر نیازی”’ایک اور دریا کا سامنا تھا مجھے منیر۔۔۔میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا“‘۔
فیس بک کمینٹ