سیاست کا کھیل اتنا بے رحم ہے کہ اکثر ساری زندگی کی وفاداری ایک ہی لمحہ میں رائیگاں ہو جاتی ہے تو کبھی سرِ راہے ملنے والے اتنے عزیز ہو جاتے ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے انہیں ایسا عروج مل جاتا ہے کہ اس عروج کا کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔ یہ تمام باتیں ہمیں سینٹ کے سابق چیئرمن رضا ربانی کے حوالے سے یاد آ رہی ہیں کہ ان کے ساتھ جو ”حسنِ سلوک“ پی پی پی نے کیا اس پر تمام سیاسی و غیر سیاسی حلقے حیران کم اور پریشان زیادہ ہیں کہ آخر آصف علی زرداری کے کون سے ایسے مفادات پر رضا ربانی ”راضی“ نہ ہوئے کہ جس پر آصف علی زرداری کو سرِبازار یہ قصہ بے درد منظرِ عام پر لانا پڑا۔ رضا ربانی سے آصف علی زرداری ناراض ہوئے۔ یہ عقدہ تو کبھی نہ کبھی کھل جائے فی الحال ہم آپ کو یہ بتانے جا رہے ہیں کہ پونی ہیئر سٹائل کے مالک رضا ربانی کا پروفائل کیا ہے؟ 23 جولائی 1953ءکو پیدا ہونے والے رضا ربانی کا تعلق ارائیں خاندان سے ہے۔ ان کی پیدائش اگرچہ لاہور کی ہے (شاید اس لیے میاں نواز شریف نے انہیں متفقہ طور پر چیئرمین سینٹ کے طور پر لانے کی بات کی) لیکن ان کا بچپن کراچی میں گزرا۔ حبیب پبلک سکول کراچی سے ابتدائی تعلیم جبکہ بی۔اے اور ایل۔ایل۔بی کراچی یونیورسٹی سے کیا۔ کراچی یونیورسٹی میں انہوں نے طلباءسیاست کے ذریعے اپنی پہچان کرائی اور لبرلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سربراہ بنے۔ ذہنی و نظریاتی طور پر وہ 1968ءمیں پی پی کے قریب آ چکے تھے۔ جنرل ضیاءکے دور میں جب انہیں جیل ڈالا گیا تو اسی دوران انہیں اطلاع ملی کہ وہ ایل ایل بی کے امتحان میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ رضا ربانی نے سیاسی سفر کے آغاز میں پی پی کا انتخاب کیا اور آج تک وہ اسی جماعت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پی پی کے پلیٹ فارم کے تحت وہ مختلف حکومتی عہدوں پر فائز رہے۔ سینٹ میں ان کی منہ دکھائی 1993ءمیں ہوئی۔ تب سے لے کر اب تک وہ مسلسل ایوانِ بالا کے رکن چلے آ رہے ہیں۔ اس دوران کبھی وہ سینٹ میں اپوزیشن لیڈ رہے تو کبھی وفاقی وزیر۔ آصف علی زرداری نے انہیں گزشتہ دور میں چیئرمین سینٹ منتخب کرایا۔ رضا ربانی اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ انہوں نے یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔ جیسے ہی پرویز مشرف کا دورِ صدارت مکمل ہوا تو انہیں کابینہ میں شامل کر لیا گیا۔ 2011ءمیں جب صدر آصف علی زرداری نے ق لیگ اتحاد کیا تو تب بھی وہ عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ 2012ءمیں دوبارہ سینیٹر بنایا گیا۔ آصف علی زرداری نے فاروق نائیک کے بعد رضا ربانی کو چیئرمین سینٹ نامزد کیا۔ یوں وہ بھاری اکثریت سے مولانا فضل الرحمن اور دیگر جماعتوں کی حمایت سے 2013ءمیں چیئرمین سینٹ منتخب ہو گئے۔ رضا ربانی کو ان کی خدمات کے صلہ میں پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز ”نشانِ امتیاز“ بھی دیا گیا ہے۔ لاپتہ افراد کا کیس ہو یا امریکہ کی طرف سے پاکستان پر ڈرون حملے۔ عراقی جنگ میں تابکاری ہتھیاروں کا استعمال کا ایشو ہو یا ڈاکٹر قدیر خان کی قیدِ تنہائی، رضا ربانی ایسے تمام معاملات پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے۔
2018ءکے آغاز میں جب سینٹ انتخابات کی سرگرمیاں شروع ہوئیں تو اچانک نواز شریف نے رضا ربانی کو ن لیگ کی طرف سے چیئرمین بنانے کا عندیہ ظاہر کیا۔ معلوم نہیں نواز شریف کے اس فیصلے کے پس منظر میں کیا کہانیاں پوشیدہ تھیں۔ لیکن آصف علی زرداری نے فوری طور پر جواب میں کہا کہ ہمیں رضا ربانی سے کچھ شکایات رہی ہیں اس لیے انہیں اگلے پانچ برسوں کے لیے چیئرمین سینٹ نہیں بنایا جا سکتا۔ جیسے ہی رضا ربانی کو اپنے متعلق آصف علی زرداری کے خیالات کا علم ہوا تو ان کا ناراض ہونا قدرتی امر تھا۔ چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے موقعہ پر جب ایک ایک ووٹ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ایسے میں رضا ربانی کا ناراض ہونا پی پی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا تھا۔ ایسے میں آصف علی زرداری نے بلاول بھٹو زرداری کو آگے کیا۔ بلاول نے رضا ربانی سے ملاقات کر کے انہیں رام کیا۔ ملاقات کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے اعلان کیا کہ رضا ربانی بھی ہمارے اُمیدوار ہو سکتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ آصف علی زرداری اپنے بیٹے کو سیاست میں اس لیے لائے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ کر کے میڈیا کے سامنے لاتے ہیں اگر میڈیا اور دوسرا فریق واہ کرے تو اس کا کریڈٹ خود لیتے ہیں اگر ان کے کسی فیصلے پر تنقید ہو تو گرد جھاڑنے کے لیے بلاول بھٹو زرداری کو آگے کر دیتے ہیں۔ رضا ربانی جب ناراض ہوئے تو بلاول نے جا کر انہیں منا لیا پھر گیارہ مارچ 2018ءکی شام کو بلاول بھٹو زرداری نے سنجرانی کو چیئرمین سینٹ کے لیے نامزد کر دیا۔ سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے طور پر سامنے لائے گئے۔ بلاول بھٹو زرادری نے اُسی پریس کانفرنس میں یہ بھی اعلان کیا کہ مستقبل میں رضا ربانی کو اہم ذمہ داری سونپی جائے گی۔ یوں رضا ربانی کا سینٹ میں بطور چیئرمین شپ کا دور 12 مارچ کی سہ پہر اس وقت تمام ہوا جب راجہ ظفر الحق 46ووٹ لے کر ہار گئے۔ جبکہ صادق سنجرانی 57ووٹ لے کر چیئرمین بن گئے۔ ایوانِ بالا میں شیروں کا شکاری آصف زرداری کے نعرے بلند ہوئے یوں اگلے پانچ برسوں کے لیے پی پی پی کی مرہونِ منت سے بننے والا چیئرمین آ گیا۔
صادق سنجرانی کے چیئرمین سینٹ بننے سے بلوچستان کے حصے میں یہ اعزاز آیا۔ اس سے قبل کے۔پی۔کے کے حبیب اللہ خان مروت 6 اگست 1973ءکو چیئرمین سینٹ بنے۔ ان کا تعلق پی پی پی سے تھا۔ 21 مارچ 1985ءکو غلام اسحاق خان چیئرمین سینٹ بنے۔ 24 دسمبر 1988ءوسیم سجاد نے یہ عہدہ سنبھال لیا۔ وہ 20 مارچ 1999ءتک اس عہدے پر فائز رہے۔ 12 مارچ 2003ءکو سندھ سے تعلق رکھنے والے محمد میاں سومرو چیئرمین منتخب ہوئے۔ 12 مارچ 2009ءکو پی پی سے تعلق رکھنے والے فاروچ ایچ نائیک کے حصہ میں چیئرمین شپ آئی۔ 11 مارچ 2015ءپی پی کے سینیٹر حسین بخاری چیئرمین سینٹ بنے۔ رضا ربانی نے 12 مارچ 2015ءکو سینٹ کی چیئرمین شپ سنبھالی اور 12 مارچ 2018ءکو صادق سنجرانی پی پی پی کی حمایت سے چیئرمین سینٹ بن گئے۔
رضا ربانی کو پی پی پی نے چیئرمین سینٹ کیوں نہ بنایا؟ یہ سوال ایسا ہے جس کا جواب صرف آصف علی زرداری ہی دے سکتے ہیں لیکن گزرے ہوئے پانچ برسوں میں رضا ربانی نے کیا نواز حکومت کے لیے سوفٹ رویہ اپنایا تھا یہ بحث اپنی جگہ پر اہم ہے۔ لیکن آصف علی زرداری نے جب بلوچستان میں جا کر اپنا وزیر اعلیٰ منتخب کرایا تھا تب یہ بات کسی نے سوچی بھی نہیں تھی کہ وہ اصل میں یہ سب کچھ سینٹ انتخابات کے لیے کر رہے ہیں۔ جب آصف علی زرداری اپنی حمایت سے وزیراعلیٰ بلوچستان لانے میں کامیاب ٹھہرے تو اس کامیابی کے پس منظر میں یہ یقین دہانی بھی شامل ہو گی کہ چیئرمین سینٹ بھی اب بلوچستان کا ہو گا جیسا کہ ہم کالم کے آغاز میں لکھ چکے ہیں کہ ہمارے ملک کی سیاست میں بے رحمی کے اس نقطہ عروج پر جا چکی ہے جہاں پر برسوں پرانی وفاداری کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ بہرحال جب آصف زرداری بلوچستان میں کامیاب ہو گئے تو ہمیں اس دن سے یقین ہو گیا تھا کہ آصف علی زرداری کسی اور کی گیم کھیل رہے ہیں۔ عمران خان سینٹ کے انتخابات میں اپنے گھوڑوں کو بلوچستان حکومت کے ذریعے آصف علی زرداری کے حوالے کر آئے۔ ٹوٹی پھوٹی اور کٹی ہوئی پتنگ کی متحدہ بھی 12 مارچ کی صبح کو صادق سنجرانی کو صادق و امین کہنے پر مجبور ہوئی۔ ن لیگ کے اُمیدوار کے طور پر راجہ ظفرالحق کو جس طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا س سے بہتر تھا کہ ن لیگ کسی ایسے سینیٹر کو اُمیدوار کے طور پر سامنے لاتی جو سیاسی میدان کا پرانا کھلاڑی نہ ہوتا۔ صادق سنجرانی کے سامنے ن لیگ نے حاصل بزنجو کا ”منافع“ حاصل کرنا چاہا لیکن حاصل بزنجو کی صورت میں خسارہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس سارے تماشے میں ہمیں فضل الرحمن سے اظہارِ افسوس کرنا ہے کہ اس مرتبہ وہ آصف علی زرداری کی بجائے ن لیگ کے ساتھ کھڑے تھے اور وہ بھی حکمران جماعت کی طرح خالی ہاتھ گھر گئے۔ اب ہم صادق سنجرانی کے بارے میں سیّد یوسف رضا گیلانی سے دریافت کریں گے کہ رضا ربانی کی جگہ جو نیا چیئرمین سینٹ آیا ہے کیا اس کے انتخاب میں آپ کی ”رضا“ شامل بھی ہے یا نہیں کہ ان میں اور رضا ربانی میں ایک مماثلت تو ہے، دونوں کے ناموں میں رضا ہے۔ کیا آنے والے دنوں میں آصف علی زرداری کسی اہم عہدے کے لیے یوسف رضا پر راضی ہوں گے یا نہیں کیونکہ ایک رضا سے وہ راضی نہیں کیا دوسرے رضا سے بھی راضی ہیں یا وہ اس کے لیے بھی کسی نئے صادق کا انتخاب کریں گے؟
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ