مَیں سوچ رہا ہوں کہ اگر 25 برس قبل قسور گردیزی کا انتقال نہ ہوا ہوتا اور وہ موجودہ حکومت کا حصہ ہوتے تو ہم سب سے زیادہ مطمئن قسور گردیزی کو پاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص لباس پہننے میں کھدر کو ترجیح دیتا ہے، کھانے پینے میں سادہ خوراک اور سیاست میں ایمانداری کو منشور بنا کر چلتا ہو تو اس کے لیے پروٹوکول کی کیا حیثیت ہے۔ اچھے لباس کے ساتھ فوٹو سیشن اور کھانے کی میز پر لوازمات کی بھرمار اس کے لیے کوئی معنی نہ رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال جب سیّد قسور گردیزی کی برسی آتی ہے تو مجھے ایک بات شدت سے پریشان کرتی ہے کہ ہمارے ملکی سیاسی منظرنامے میں قسور گردیزی جیسا کوئی اور کیوں نہیں؟ حتیٰ کہ اُن کے خاندان میں بھی اُن کے نقشِ قدم پر چلنے والا کوئی دوسرا قسور گردیزی دکھائی نہیں دیتا۔
وہ درویش منش انسان تھے، مٹی سے محبت کرنے والے اور دکھوں کو کم کرنے کا ہر وقت کوئی نہ کوئی منصوبہ ذہن میں رکھتے کہ شاید اُن کی وجہ سے معاشرے میں کوئی تبدیلی آ جائے۔ وہ انسان کی توقیر کرانا چاہتے تھے۔ ان کے ہاں جو تبدیلی کا نعرہ تھا اس میں منافقت اور دہرا معیار قطعاً نہ تھا۔ وہ جیسا دِکھتے تھے ویسے ہی وہ اپنے گھر میں ہوتے تھے اور دوستوں میں بیٹھ کر اور بھی درویشی اوڑھ لیتے تھے۔ جیل گئے تو جیل کی زندگی کو انہوں نے اپنے لیے اعزاز جانا۔ سیاست میں آئے تو اثاثے بیچ کر سیاست کی۔ وہ عجیب وضع کے شخص تھے جو معاشرے میں تبدیلی چاہتے تھے لیکن اکیلا آدمی کس طرح تبدیلی لا سکتا ہے جس کا ایک ایسے خاندان سے تعلق تھا جو رئیس ابنِ رئیس کہلاتا تھا۔ وراثت میں کئی مربعے زمین ملی لیکن حیرت کی بات ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کے لیے ایک بہت بڑی لائبریری وراثت میں چھوڑی۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے بچوں میں نیک نامی اور خدا ترسی کا ترکہ بھی وقف کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے قریبی عزیز مخدوم سجاد حسین قریشی جب گورنر پنجاب بنے تو وہ اُن سے ملنے گورنر ہاؤ س نہ تو رات کی تاریکی میں گئے اور نہ ہی دن میں۔ کہ یہ وہی دن تھے جب وہ ضیاءآمریت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے تھے اور ایسے میں کوئی ایک خبر اُن کے عزم کو کمزور کر سکتی تھی۔ خاندان کی غمی خوشی کی تقریبات میں گورنر پنجاب سجاد حسین قریشی باقاعدگی سے آتے۔ سیّد قسور گردیزی اُن سے ملنے کے لیے لائن میں نہیں کھڑے ہوتے تھے۔ بلکہ ایسے مواقعوں پر وہ ہجوم میں گم ہو جاتے کہ نہ وہ گورنر پنجاب کو دکھائی دیں اور نہ ہی اُن کے ساتھ ملاقات ہو۔ قسور گردیزی کے اس رویے کو اُن کی اہلیہ بہت محسوس کرتیں کہ میرا بھائی گورنر تو بعد میں بنا ہے تعلق تو ہمارا پرانا ہے۔ اب آپ اُسے گورنر سمجھ کے ملتے ہیں۔ قسور گردیزی مسکرا دیتے اور کہتے کہ جب تک مخدوم صاحب گورنر ہیں تب تک مجھے احتیاط کرنی ہے ورنہ لوگ کیا کہیں گے؟ یہ قسور گردیزی مرحوم کی شخصیت کا ایک پہلو تھا۔ اس طرح کے بے شمار واقعات ان کی شخصیت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
قسور گردیزی کا تعلق پنجاب کے اس علاقے سے تھا جہاں پر صرف محرومیاں راج کرتی تھیں۔ لیکن اس سب کے باوجود سید قسور گردیزی کا قلم اور ا
ن کی زبان کبھی بھی پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہوئی۔ وہ پاکستان کی محبت میں اس انداز سے گرفتار تھے کہ اگر انہوں نے اپوزیشن کی سیاست کرنی ہوتی تو حکومت وقت کو مطعون کرتے لیکن پاکستان اور قائداعظم محمد علی جناح کے بارے میں ہمیشہ اپنے خیالات ارفع و اعلیٰ رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ مَیں ہر سال ستمبر میں سیّد قسور گردیزی کو یاد کرتا ہوں کہ ان کی شخصت کے ہیولے کے سامنے نہ صرف اپنے آپ کو چھوٹا محسوس کرتا ہوں بلکہ اسی تناظر میں جب آج پاکستان کی سیاست دیکھتا ہوں تو پھر سیّد قسور گردیزی کی یاد کی شمع مزید روشن ہو جاتی ہے۔ اسی لیے ملکی سیاست کے منظرنامے میں جب سیّد قسور گردیزی جیسے لوگوں کی کمی دیکھتا ہوں تو پھر احساس ہوتا ہے کہ ہم نے رائیگانی کے جس سفر کو اپنا منشورِ حیات بنا رکھا ہے وہ تو صرف وقت کا ضیاع ہے۔ یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ سیّد قسور گردیزی کبھی اقتدار میں نہیں رہے لیکن عوام اور خواص ان کا برابر احترام کرتے تھے۔ اس کا بین ثبوت مجھے ان کی پہلی برسی کے اجتماع پر ملا جہاں پورے پاکستان کے نامور سیاست دان جمع تھے۔ سیاسی کارکن اپنے نظریات کے مطابق تقاریر کر رہے تھے۔ بہاولپور روڈ (اب سیّد قسور گردیزی روڈ ہے) پر ان کے آبائی گھر کے وسیع و عریض صحن پر ہزاروں لوگ جمع تھے۔ کہیں پر جئے بھٹو والے تھے تو کسی جانب اے این پی والے سرخ سویرا کی تشریح کر رہے تھے اور تو اور جماعت اسلامی کے ملک وزیر غازی بھی سیّد قسور گردیزی کی شان میں رطب اللسان تھے۔(جاری ہے)