الہ آباد :اردو زبان کے معروف ادبی نقاد، ناول نگار اور شاعر شمس الرحمان فاروقی آج سہ پہر انڈیا کے شہر الٰہ آباد میں وفات پا گئے ہیں۔ ان کی عمر 85 برس تھی۔وہ ایک ماہ قبل ہی کووڈ 19 سے صحتیاب ہوئے تھے۔پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے ان کے بھتیجے اور مصنف محمود فاروقی کے حوالے سے بتایا کہ وہ دلی سے اپنے گھر الٰہ آباد واپس جانے پر مصر تھے۔ ‘ہم آج یہاں پہنچے اور آدھے گھنٹے بعد ان کی وفات ہوگئی۔’
شمس الرحٰمن فاروقی اردو کے عہد ساز نقادوں میں شمار ہوتے تھے انہیں بھارت کا سب سے بڑا پدم شر ی ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ وہ اردو ادب کے مشہور نقاد اور محقق تھے جنہوں نے تنقید نگاری سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے الہ آباد سے ’شب خون‘ کا اجرا کیا جسے جدیدیت کا پیش رو قرار دیا گیا۔ اس رسالے نے اردو مصنفین کی دو نسلوں کی رہنمائی کی۔
فاروقی صاحب نے شاعری کی، پھر لغت نگاری اور تحقیق کی طرف مائل ہو گئے۔ اس کے بعد افسانے لکھنے کا شوق ہوا تو “شب خون“ میں فرضی ناموں سے یکے بعد دیگرے کئی افسانے لکھے جنہیں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ تین سال قبل انہوں نے ایک ناول لکھا، ‘سانچہ:کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ جسے عوام و خواص نے بہت سراہا۔ اس کے علاوہ انہیں عام طور پر اردو دنیا کے اہم ترین عروضیوں میں سے ایک گردانا جاتا تھا غرض یہ اردو ادب کی تاریخ میں شمس الرحمٰن فاروقی جیسی کثیر پہلو شخصیت کی نظیر ملنا مشکل ہے۔انہوں نے کوئی چالیس سال تک اردو کے مشہور و معروف ادبی ماہنامہ “شب خون“ کی ادارت کی اور اس کے ذریعہ اردو میں ادب کے متعلق نئے خیالات اور برصغیر اور دوسرے ممالک کے اعلیٰ ادب کی ترویج کی۔
شمس الرحمن فاروقی نے اردو اور انگریزی میں کئی اہم کتابیں لکھی ہیں۔ خدائے سخن میر تقی میر کے بارے میں ان کی کتاب ‘شعر شور انگیز’ جوچار جلدوں میں ہے، کئی بار چھپ چکی ہے اوراس کو 1996ء میں سرسوتی سمّان ملا جو برصغیر کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ کہا جاتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے تنقید، شاعری، فکشن، لغت نگاری، داستان، عروض، ترجمہ، یعنی ادب کے ہر میدان میں تاریخی اہمیت کے کارنامے انجام دیے ہیں۔ انہیں متعدد اعزاز و اکرام مل چکے ہیں جن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اعزازی ڈگری ڈی لٹ بھی شامل ہے۔