آج سے تقریباً پانچ سو سال پہلے تک ،ساری دنیا میں موروثی بادشاہت اور اس کے نیچے بدترین جاگیرداری نظام کا دور دور ہ تھا۔مشرق سے مغرب شمال سے جنوب تک لوگ اسی استحصالی نظام میں جکڑے ہوئے تھے۔مشرق وسطیٰ سے لیکر لاطینی امریکہ تک۔آسٹریلیا سے سکنڈے نیویا تک ہر جگہ غلاموں کی منڈیاں سجائی جاتیں۔ سرِ عام بولیاں لگتیں۔اور آدم کی اولاد بھیڑ بکریوں کی طرح نیلام ہوتی۔پھر سولہویں صدی عیسوی میں اٹلی میںصنعتیں قائم ہوئیں ۔ لوگ کھیت کھلیانوں سے بھاگ کر فیکٹریوں میں مزدوری کرنے لگے۔ یہاں بھی ان کا استحصال ہوتا، مگر دس بارہ گھنٹوں کی مشقت کے بعد اگلے دس بارہ گھنٹوں تک وہ آزاد ہوتے۔ ہر ماہ ان کی ہتھیلی پر ایک قلیل سی اُجرت رکھ دی جاتی۔جو ان کی محنت کا نقد معاوضہ ہوتا۔ اسے وہ اپنی مرضی سے خرچ کرنے میں آزاد ہوتے۔ یہاں سے ہی انسانوں نے پہلی مرتبہ آزادی کا مزہ چکھا۔ لیکن غلامی کا ادارہ بدستور قائم رہا۔ ایک وہ غلام تھے جو باقاعدہ خریدے اور بیچے جاتے۔ جن کے مالکوں کے ہاتھ میں باقاعدہ مالکانہ حقوق ہوتے۔ جسے بیسویں صدی میں بھی سید مودودی جیسے احیا پسند، یہ لکھ کر تحفظ دے رہے تھے ،کہ اسلام میںمعاوضہ لے کر حقوقِ ملکیت تفویض کر دینا ناجائز نہیں ۔امریکہ میں انیسویں صدی کے وسط میں بھی غلامی کا ادارہ اتنا مضبوط تھا،کہ صدر ابراہام کو اس ادارے کو توڑنے کی خاطر ریاستی سطح پر ایک طویل جنگ لڑنا پڑی۔اس دور کا لٹریچر پڑھیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک کہانی جس کا اردوترجمہ پابندِ سلاسل کے نام سے کیا گیا ہے۔ پڑھیں تو آنسو تھمنے میں ہی نہیں آتے ۔ جب بھی کوئی مالک تنگ دستی کا شکار ہوتا۔ کسی کی بیوی ، کسی کے باپ ، کسی کی ماں اور اکثر ایک آدھ بچے کو فروخت کر کے اپنا وقت ٹپا لیتا۔ جیسا کہ ہم گھر کا کوئی جانور بیچ کر اپنی نیکی بدی بھگتا لیتے ہیں۔ جی ہاں یہ کام آج سے ڈیڑھ صدی قبل اسی کرہ ارض پر ساری دنیا کی نظروں کے سامنے ہو رہا تھا۔ ہمارا عالم اسلام غلاموں کی سب سے بڑی منڈی تھا۔جہاں ساری دنیا سے تاجر تشریف لاتے اور جہاز بھر بھر کر ” مال“ لے جاتے اور اپنی تجوریاں بھرتے۔مغرب میں سائنس اور ٹیکنا لوجی کے فروغ کے ساتھ ساتھ جدید انڈسٹری نے قدیم جاگیردارانہ سماج کو شکست دے کر ایک نئے دور کی بنیاد رکھی۔جسے آج ہم سرمایہ دارانہ جمہوریت کہتے ہیں۔ اس نظام میں بھی مزدور کا استحصال کیا جاتا ہے۔ مگر مغرب میں آج کا مزدور اس غلامی کے بھیانک دور سے نکل آیا ہے۔ اس جمہوریت نے تعلیم صحت اور روزگار کے مواقع آسان بنا کر عام آدمی کے لیے بہت سارے مسائل کم کیے ہیں۔ لیکن جہاں جہاں جمہوریت ابھی تک اپنے پاﺅں جمانے میں ناکام ہوئی ہے وہاں عام انسان ابھی تک بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ پورے عالم اسلام میں ایک ملک ترکی ہے جہاں جمہوریت موجود تو ہے مگر مضبوط آج تک نہیں ہو سکی۔دوسرا ملک پاکستان ہے۔ جہاں عوام نے جمہوریت کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔ لیکن ابھی تک جمہوریت جڑ نہیں پکڑ سکی۔ ہمارے ہاں مسلسل آمریت نے سب سے بڑا ظلم جو عام آدمی پر کیایہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر ایک ایسا طبقہ عوام پر مسلط کیا، جو بنیادی طور پر مراعات یافتہ طبقہ تھا۔ جس کی جڑیں قدیم جاگیردارانہ سماج میں ہیں۔ اور ضیا آمریت نے اس جاگیر دار اشرافیہ کے ساتھ ساتھ سرمایہ دار اشرافیہ کو بھی حکومت کی راہ دکھائی۔ اب یہ طبقات جمہوریت کے نام پر اقتدار پر قابض ہیں۔یہ بڑے بڑے میگا پرا جیکٹس پر تو یقین رکھتے ہیں۔ جہاں سے ان کے روزگار اور کمیشن میں دن دُگنی رات چوگنی ترقی ہوتی ہے، مگر عام آدمی کے بنیادی مسائل، صحت تعلیم روزگار۔ ان کی ترجیح کبھی نہیں رہے۔دوسے اڑھائی کروڑ بچے سکول جانے سے محروم ہیں۔ یہ تعلیم پر پانچ فی صد کا وعدہ کر کے اس کا نصف بھی خرچ نہیں کرتے۔ سکول جانے سے محروم یہ بچے گیراجوں ، نجی غیر قانونی فیکٹریوں ، کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں سے پلاسٹک اور کپڑے کی ٹاکیاں اکٹھی کرتے ہیں یا بھٹوں پر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اور ایک بڑا حصہ گھروں کے اندر گھریلو ملازموں کے طور پر کام کرتا ہے ۔ اور یہ کام اب باقاعدہ ایک غیر قانونی ادارے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اقتدار پر کبھی آمریت کبھی نام نہاد جمہوریت کے نام پر قابض طبقے نے تقریباً پندرہ کروڑ سے زائد عوام کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ اس غالب اکثریت کے پاس زندگی کو ڈھنگ سے گزارنے کے لیے کوئی معقول روزگار اور وسائل نہیں ہیں۔ یہ طبقہ بنیادی طور پر ناخواندہ اور نیم خواندہ ہے۔سیاست دان کا جلسہ ہو یا مولوی کا ” روح پرور اجتماع “ ، یہ خام مال کی صورت وافر مقدار میں دستیاب ہے۔چاولوں کی ایک پلیٹ پر ایک دوسرے کو کچل دینے والا یہ طبقہ ایک آمر ایک سرمایہ دار یا جاگیر دار جمہوری لیڈر اور مذہب کے نام پر فتنہ پھیلانے والے مولوی کے لیے اصل سرمایہ ہے۔ یہ سب کے سب ایک معروف اصطلاح کے مطابق ایک صفحے پر ہیں۔یہ لوگ عوام کے نام پر ہرگز ایک ایسا طبقہ نہیں چاہتے جو قدرے پڑ ھا لکھا ہو، اپنے دماغ سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔اس بے رحم اشرافیہ کو عوام کی صورت ایک ایسا غلام طبقہ چاہیے جو،آمر اقتدار پر قبضہ کرے تو بازاروں میں مٹھائی بانٹے،ایک سرمایہ دار اقتدار میں ہو تو اسے اپنا لیڈر تسلیم کر لے۔ جاگیر دار راتوں رات پارٹی بدلے تو دوسری صبح یہ اپنے گھروں کی چھتوں سے قاف لیگ کا پرچم اُتار کر ن لیگ کا پرچم بلند کردے۔ مولوی اسلام کو خطرہ ہے کا نعرہ بلند کرے تو یہ اکثریت بھوکے بھیڑیوں کے غول کی شکل میں اقلیت پر موت بن کر ٹوٹ پڑے۔اقتدار پر قابض اشرافیہ کو مبارک ہو کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ عوام کی صورت غلاموں کا ایک انبوہ عظیم ان کے اقتدار کی حفاظت کے لئے میسر ہے۔ مستقبل میں ان کے اس نظام کو کوئی بڑا خطرہ لاحق ہوتانظر نہیں آ رہا۔رہا پاکستان تو اسے قدرت نے ہر حال میں قائم رکھنا ہے۔ کیونکہ یہ رمضان المبارک میں قائم ہوا تھا۔
فیس بک کمینٹ