جنوری کی ایک ٹھٹھرتی صبح سورج ابھی نصف النہار پر نہیں آیا تھا ۔ ملتان چھاؤنی کے بابو محلے میں واقع ایک سہ منزلہ مکان کے صحن میں ایک جنازہ موجود تھا۔ جنازے کے گرد عورتیں بین کرتی تھیں ۔ ایک میت تھی کہ جسے ابھی کفنایا نہیں گیا تھا اور اس کے چہرے پر لہو تھا ۔ چیخ و پکار تھی اور آہ و بکا تھی ۔ عورتوں کے دلخراش بین تھے ۔ پورے محلے کی عورتیں صحن میں جمع ہو کر جوان موت پر آنسو بہا رہی تھیں ۔ اس گھر میں تین سال کے دوران یہ دوسری جوان موت تھی ۔ ایک 30سالہ درزی کی موت جو ٹریفک حادثہ کا شکار ہو گیا تھا ۔ اس گھر کے مکین تو ابھی پہلی موت کا صدمہ ہی نہ بھلا پائے تھے ۔ اسی درزی کا بڑا بھائی تین سال پہلے پاک بھارت جنگ کے دوران گولہ باری کا نشانہ بنا تھا ۔ اس کی ماں صدمے سے بے حال تھی، بہنیں میت سے لپٹتی تھیں، بیوہ پر غشی طاری تھی اور اس سارے کہرام سے بے خبر ایک ساڑھے 3سالہ بچہ جنازے کے پاس کھیل رہا تھا۔ وہ حیرت سے کبھی جنازے کو اور کبھی رونے والوں کو دیکھتا اور پھر دوبارہ کھیل میں مگن ہو جاتا۔ ساڑھے تین سالہ بچہ ۔ جو اس بات سے بے خبر تھا کہ اس کے کھیلنے کے دن ختم ہو گئے ہیں ۔ مگر وہ کھیلتا تھا ۔ خاموشی کے ساتھ ۔ پھر وہ اس کہرام اور چیخ و پکار سے گھبرا گیا ۔ گھبراتا کیوں نہ اسے بین کرنے والی عورتوں نے باری باری اپنے سینے سے لگا کر رونا جو شروع کر دیا تھا ۔ گھبرائے ہوئے بچے کو کسی ہمسایہ کے گھر بھیج دیا گیا تاکہ وہ مزید نہ روئے ۔ اس کی گھبراہٹ ختم ہو گئی اور اس نے دوبارہ کھیلنا شروع کر دیا حالانکہ اس کے کھیلنے کے دن ختم ہو گئے تھے ۔ جنازہ کب اُٹھا ؟ کس کس نے شرکت کی ؟ کس کس نے کندھا دیا ؟ کلمہ شہادت کس نے کہا اور تدفین کیسے ہوئی ؟ وہ بچہ اس سارے عمل سے بے خبر رہا۔ اُسے شام کو گھر واپس لایا گیا جب گھر خالی ہو چکا تھا ۔ جنوری کی وہ شام اُس گھر میں ہی نہیں کچھ زندگیوں میں بھی تاریکیاں لے کر آئی تھی اور ان میں سے ایک زندگی اس بچے کی اور دوسری اس کی ماں کی تھی ۔جنازے کے قریب کھیلنے والا ساڑھے تین سالہ بچہ کوئی اور نہیں مَیں خود تھا ۔ میں نے زندگی میں پہلا جنازہ اپنے والد کا ہی دیکھا تھا ۔
اس جنازے کے بس یہی چند مناظر میرے ذہن میں محفوظ ہیں اور شاید بچپن کا اس سے پہلے کا کوئی اور واقعہ مجھے یاد بھی نہیں ۔ بس اُسی روز کا ایک اور لمحہ مجھے یاد ہے کہ صبح ساڑھے نو یا دس بجے کے قریب جب وہ گھر سے نکلنے لگے تھے تو میں نے اُن کے ساتھ جانے کی ضد کی تھی ۔ بالکل اسی طرح جیسے باپ کے گھر سے نکلتے وقت ہر بچہ اُس کے ساتھ جانے کی ضد کرتا ہے ۔ جیسے میں گھر سے نکلنے لگوں تو میری دعا میرے ساتھ جانے کی ضد کرتی ہے یا جیسے حنان اور نگین جب ساڑھے تین یا چار سال کے تھے تو میرے ساتھ جانے کی ضد کیا کرتے تھے ۔ سو مَیں نے بھی ضد کی تھی ۔ اپنے بچپن کی یہ ایک ہی ضد مجھے یاد ہے جو میں نے اپنے باپ کے ساتھ کی تھی اور یہ ایک بچے کی اپنے باپ کے ساتھ آخری ضد تھی ۔باپ کی موت سے دس منٹ پہلے ایک ساڑھے تین سالہ بچے کی ضد ۔ اور باپ نے اُسے دلاسہ دیا تھا ”بیٹا میں ابھی آتا ہوں ، تمہار ے لئے ٹافیاں لے کر آؤں گا“ اور پھر پلٹ کر میری ماں سے کہا تھا ”آج آلو والے پراٹھے پکا لینا ۔“ وہ سائیکل پر گئے تھے۔ بابو محلے سے نواں شہر تک سائیکل پر جانے میں انہیں دس منٹ ہی لگے ہوں گے ۔ ابدالی روڈ پر جہاں پریس کلب ہے اس سے تھوڑا سا آگے ایم سی سی گراؤنڈ میں کرکٹ میچ ہو رہا تھا ۔ وہ سائیکل بھی چلا رہے تھے اور ساتھ ساتھ میچ بھی دیکھ رہے تھے ۔پیچھے سے ایک جیپ آئی جو کوئی گردیزی چلا رہا تھا ۔ ممکن ہے جیپ والے نے ہارن بھی دیا ہو مگر وہ اُونچا سنتے تھے ۔مگر میرا خیال ہے ہارن کی نوبت نہیں آئی ہوگی ۔ ہارن تو وہاں دیا جاتا ہے جہاں سڑکوں پر ہجوم ہو ، ٹریفک جام ہو ، کھوے سے کھوا چھلتا ہو ۔1968ءمیں جنوری کی اُس ٹھٹھرتی صبح ابدالی روڈ پر ٹریفک ہی کتنی ہوگی کہ اُن دنوں تو ملتان میں موٹریں اکا دُکا ہی ہوا کرتی تھیں ۔ سو جیپ میں سوار اس گردیزی نے ایک سائیکل سوار درزی کو کچل دیا ۔ ایک سائیکل سوار درزی جو ملتان کی ایک کشادہ سڑک پر اُس گردیزی کی تیز رفتار جیپ کی راہ میں رُکاوٹ پیدا کر رہا تھا اور جس کا بیٹا گھر میں ٹافیوں کا منتظر تھا اور جس کی بیوی اُس کے لئے آلو والے پراٹھے بنانے کا سوچ رہی تھی اور اس بات سے بے خبر تھی کہ وہ اب بیوی نہیں بیوہ ہو گئی ہے ۔ کوئی آدھ گھنٹے بعد محلے والوں نے گھرآ کر موت کی اطلاع دے دی ۔ریلوے کے ریٹائرڈ ہیڈ کلرک شیخ عبدالکریم نے اپنے دوسرے بیٹے کے جنازے کو کندھا دینے کے لئے حوصلے مجتمع کرنا شروع کر دئے ۔
”جیپ نے راہ گیر کو کچل دیا“ ۔ 30سالہ شیخ ذکاءالدین کی موت کی سنگل کالمی خبر9 جنوری کے اخبارات کے صفحہ آخر پر ان کی نعش کی تصویر کے ساتھ شائع ہوئی ۔ میں نے یہ خبر ”امروز “اور ”کوہستان “میں کئی برس بعد پڑھی ۔ ”کوہستان “کا وہ شمارہ میرے دادا نے 1965ءکی جنگ کے اُن اخبارات کے ساتھ سنبھال کر رکھا ہوا تھا جن میں میرے تایا میجر ضیاءالدین کی شہادت کے حوالے سے فیچر اور خبریں موجود تھیں۔ میں نیوز ڈیسک پر کام کے دوران جب بھی ٹریفک حادثے میں کسی راہگیر کی ہلاکت کی خبر بناتا تھا تو مجھے وہ خبر اور اپنے والد ہمیشہ یاد آتے تھے اور میں سوچتا تھا کہ آج میں جو یہ خبر بنا رہا ہوں کئی برس بعد اس راہگیر کا بچہ جب بڑا ہوگا اوراپنی ماں یا دادا کے سامان میں رکھا اخبار نکالے گا تو اس خبر کو ضرور پڑھے گا اور پھر میری طرح یہ بھی سوچے گا کہ ”کون ہوگا جس نے میرے باپ کی موت کی خبر بنائی ہوگی؟“ ۔یہ سوال میں نے بارہا سوچا ۔ وہ خبر کس نے بنائی ہوگی اور کس کیفیت میں بنائی ہوگی؟ چائے ،سگریٹ پیتے ۔ نیوز روم میں خوش گپیاں کرتے اور قہقہے لگاتے بنائی ہوگی؟ ۔ کہ خبر کتنی ہی اندوہناک کیوں نہ ہو اِسی ماحول میں بنتی ہے ۔ ہم اخبار نویس بھی گورکن ہی تو ہوتے ہیں ۔ نعشیں گِن گِن کر اور سیاہ حاشیے لگا لگا کر بے حس ہو جاتے ہیں ۔ یا پھر شاید اتنے دکھ سمیٹتے ہیں کہ ہمارے لئے ہر نعش پر آنسو بہانا ممکن ہی نہیں رہتا۔ آنسو بھی تو ایک حد تک بہتے ہیں ناں پھر اس کے بعد تو آنکھیں خشک ہو جاتی ہیں بس دل بھیگتا ہے۔ تو پھر میں سوچتا ہوں کہ جس نے بھی یہ خبر بنائی ہوگی کیا اُس نے یہ سوچا ہوگا کہ وہ جو یہ غیر اہم سی خبر بنا رہا ہے یہ ایک ساڑھے تین سالہ بچے کیلئے کتنی اہم ہوگی ۔ اتنی اہم کہ وہ برسوں بعد جب بھی کسی لائبریری میں اخبارات کی فائلیں دیکھے گا تو اُن میں سے جنوری 1968ءکی فائل ضرور تلاش کرے گا اور ہر بار اپنے باپ کی موت کی خبر اور نعش کی تصویر اس طرح دیکھے گا کہ جیسے یہ حادثہ ابھی اسی لمحے ہوا ہو ۔
ساتھ جانے کی ضد ۔ ٹافیوں کا وعدہ ۔ آلو والے پراٹھے اور چارپائی پر رکھی میت ۔ اپنے والد کے حوالے سے بس یہی چند یادیں میرے ذہن میں نقش ہیں ۔ ساڑھے تین سالہ بچہ اس سے زیادہ یاد بھی کیا رکھ سکتا تھا ۔ ان کی آواز کیسی تھی ؟ ۔قد کتنا تھا ؟ ۔میں انہیں کیسے پکارتا تھا ؟۔ ابو کہتا تھا ، ابا جی یا ابا جان کہتا تھا ؟۔ مجھے کچھ یاد نہیں ۔ میں نے انہیں اُن کی تصویروں اور اپنی ماں کی یادوں کی مدد سے جانا ۔ تعلیم اُن کی واجبی سے تھی ۔ قلمی دوستی ،ڈاک ٹکٹ جمع کرنا ، فوٹو گرافی اور سیاحت اُن کے محبوب مشغلے تھے ۔ دنیا جہان کے خطوط ،ملک ملک کے ڈاک ٹکٹوں کا انبار ، دوستوں کے ساتھ مختلف مقامات پر بنائی گئی تصاویر کے البم اور کپڑوں کی کترنوں کا ایک ڈھیر تھا جو مجھے ورثے میں ملا۔ ایک جواں سال درزی اپنی اولادکے لئے اس کے سوا چھوڑ بھی کیا سکتا تھا۔ سنا ہے وہ بہت ہنس مکھ تھے ، دوستوں میں خوش رہتے تھے اور ان کے ساتھ بہت سا وقت گزارتے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ان کے پاس وقت بہت کم ہے۔
حسن پروانہ قبرستان میں ایک قبر پر ان کے نام کا کتبہ ہے۔ میں ہر عید کی صبح کا آغاز اُن کی قبر پر اگر بتیاں جلا کر کرتا ہوں اور واپسی پر کسی دکان سے ایک ٹافی لے کر اپنی جیب میں ڈال لیتا ہوں کہ اُن کا وعدہ پورا ہو جائے ۔
فیس بک کمینٹ