خادم اعلیٰ پنجاب کیا آپکو معلوم ہے کہ داد رسی کیا ہوتی ہے؟؟ میں خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے بس یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا خواتین کو بااختیاربنانے اور خواتین کے حقوق کے لئے قوانین بنا دینا ہی آپ کی نظر میں کافی ہے؟؟ اسی سوال نے میری زندگی کو ایک ایسے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے کہ میری ہر رات اسی سوچ میں گزر جاتی ہے اور پھر میں اپنے ہر دن کا آغاز اس امید سے کرتی ہوں کہ شاید آج کسی حوا کی بیٹی پر ظلم نہیں ہوگا ۔مگر ہر روز خواتین پر ہونے والے مظالم میری اس سوچ کی نفی کر رہے ہوتے ہیں ۔ نہ جانے کب تک حوا زادیاں ظلم کا شکار ہوتی رہیں گی ۔ دن رات کی سوچ کے بعد میں نے اس کا حل یہ سوچا ہے کہ جب تک پولیس کے روایتی سست نظام کو سبک رفتار نہیں بنایا جائے گا ، تعلیم کا فروغ اور فرسودہ نظام کا خاتمہ نہیں کیا جائے گا اس وقت تک معاشرے میں سدھار کی امید نہیں لگائی جا سکتی۔ خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے پنجاب میں 10 سالہ دور اقتدار میں خواتین کے حقوق کی پامالی کی روک تھام کے لئے اربوں روپے کے فنڈز خرچ کرنے، قوانین بنانے اور اداروں کی تشکیل کے باوجود کروڑوں خواتین آج بھی عدم تحفظ اور استحصال کا شکار ہیں ۔ خواتین کو با اختیار بناتے ہوئے قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے اور تشدد کے خاتمہ کے لئے کیے جانے والے اقدامات کے نعرے حقیقت میں خواتین کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہےہیں۔ صوبہ میں سالانہ ہزاروں خواتین برسوں پرانے اور دورجہالت کے مظالم کا شکار ہیں۔ صوبائی حکومت کے 10 سالہ دور حکومت میں قوانین کے ساتھ 6 سے زائد ادارے قائم کئے گئے تاکہ خواتین کا تحفظ ممکن بنایا جا سکے جو صوبائی حکومت کے لئے آج تک سفید ہاتھی بنے ہوئے ہیں ۔ ان اداروں میں پنجاب حیثیت نسواں کمیشن، 18ویں ترمیم کے بعد ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ، شہید بے نظیر بھٹوویمن کرائسز سنٹر، انسداد تشدد مرکز برائے خواتین ملتان، ویمن پروٹیکشن اتھارٹی سمیت سینکڑوں کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئی ہیں جن کی کارکردگی پر آج بھی سوالیہ نشان ہے۔ صوبائی حکومت نے خواتین پر تشدد میں اضافہ کا اعتراف بھی کیا ہے۔ پنجاب بھر میں خواتین سے زیادتی کے واقعات میں آئے روزاضافہ ہونے کے باوجود کوئی سدباب نہیں کیا جا رہا۔ برداری اور معاشرے کی عزت کے معیار میں تضاد نے حکام کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیئے ہیں یہ کیسی عزت ہے کہ ایک طر ف خواتین کو بلاوجہ ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو دوسری طرف عزت کے رکھوالے ہونے کا دعویٰ کر نے والے ہی خواتین کو بے عزت کر نے پر تلے ہوئے ہیں مگر قانون خاموش تماشائی ہے ۔ اگر آج سے پندرہ سال پہلے مظفر گڑھ میں جتوئی کے نواحی علاقے میر والا کی رہائشی مختاراں مائی کے ساتھ پنچائت کے ایماء پر اجتماعی زیادتی کر نے والے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچا کر انصاف کے تقاضے پورے کر دیئے جا تے تو جنوبی پنجاب سمیت پاکستان کے کسی بھی علا قہ میں دوبارہ حوا کی بیٹیوں کوایسے ظلم کا شکار بنا نے کی کسی کی جرات بھی نہ ہوتی۔ اس حوالے سے ایک سرکاری ادارے کی رپورٹ کے مطابق خواتین سے زیادتی کے جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ پنجاب سٹیٹس آف ویمن کمیشن کے مطابق صرف گزشتہ 18 ماہ میں جنوری 2106 سے جون 2017 تک صوبہ بھر میں زیادتی کے 6 ہزار 4 سو 38 جبکہ اجتماعی زیادتی کے 1722 واقعات سامنے آئے ہیں۔ تاہم پنجاب پولیس کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2890 واقعات رجسٹرڈ کئے گئے ہیں۔ جن میں سے 2016 میں زیادتی کے 1516 جبکہ جون 2017 تک 134 واقعات رجسٹرڈ کئے گئے جبکہ 1850 واقعات کو خارج کر دیا گیا اور 510 کی تفتیش جاری ہے، اسی طرح اجتماعی زیادتی کے 195 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے 2017 میں 89 جبکہ 2016 میں 106 تھے۔ ان واقعات میں سے 114 خارج اور 41 کی کاروائی جاری ہے۔ اسی طرح 80 فیصد واقعات ذاتی عناد اور زمینوں کے تنازعے پر رجسٹرڈ کرائے گئے۔ خادم اعلی پنجاب آپکے 10 سالہ دورحکومت میں تشدد کا شکار ان خواتین کو ان کے حقوق نہ مل سکے تو آخر کب ان کی دادرسی کی جائے گی ؟ کیا آپ کے پاس میرے اس سوال کا جواب ہے یا خواتین کی دادرسی کے لئے صرف دعوے ہی کافی ہوتے ہیں ان پر عمل درآمد کروانا آپ کا فرض نہیں ہے۔
فیس بک کمینٹ