حوا کی بیٹی ہی آخر درندگی کا شکار کیوں ہوتی ہے؟ میرے اس سوال کا جواب ہے کسی کے پاس؟ کیا بہن و بیٹیاں انسان نہیں ہوتیں کہ انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح جب ، جہاں، جیسے اور جس طرح چاہے ہانک دیا جاتا ہے یا کسی بھی کھونٹے پر جا کر باندھ دیا جاتا ہے۔ نہ جانے کب تک حوا کی بیٹیاں اسی ظلم کا شکار ہوتی رہیں گی۔
یہ سوال ابھی میرے ذہن میں گردش کر ہی رہا تھا کہ اچانک ایک نیوز چینل کی نیوز کاسٹر کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی کہ ملتان میں مظفر آباد کے علاقے راجہ پور میں ایک ظالمانہ پنچائیت ہوئی جس میں سرپنچوں نے فیصلہ سنایا کہ زیادتی کے بدلے زیادتی۔ اس شرمناک فعل کے بارے میں سنتے ہی میرے تو پیروں سے زمین نکل گئی اور آنکھیں نم ہو گئیں کہ بیٹے کو بچانے کے لئے والدین نے اپنی ہی جیتی جاگتی بیٹی بھیڑ بکری بنا دی اور اپنی ہی عزت کا سودا کر دیا کیا کوئی ماں باپ اپنی عزت کا یوں سودا کر سکتے ہیں یہ سوال ہے کہ اس نے میرے دن کا سکون اور راتوں کی نیند چھین لی کہ ایک مرتبہ پھر حوا کی بیٹی خونخوار درندوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔ جنوبی پنجاب میں آئے روز خواتین اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن کو سن کر روح کانپ اٹھتی ہے مگر آخر کب تک جرم کی سزا مجرم کو ملنے کی بجائے ایک بہن و بیٹی کو ہی بھگتنا پڑتی ہے۔ لڑکی کے پیدا ہوتے ہی باپ اور بھائی اس کی عزت کے رکھوالے بن جاتے ہیں تبھی تو کوئی دکھ ، تکلیف ہو تو بیٹیاں اور بہنیں باپ اور بھائی سے اپنا درد بانٹتی ہیں مگر اب 17 سالہ عذرا کس سے اپنا دکھ کہے گی کیونکہ اسے تو اس کے اپنوں نے ہی داغ دار کر دیا۔ یہ پنچائیت کا شرمناک فیصلہ زیادتی کے بدلے زیادتی قانون کا مذاق اڑانا نہیں تو اور کیا ہے؟ مگر یہاں مجھے انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ قانون کے رکھوالے بھی عذرا کو داغ دار ہونے سے نہ بچا سکے مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اب عذرا کو انصاف ملے گا یا اب بھی وہ یوں ہی اپنی عزت کو پامال کرتی پھر رہی ہے۔ کیونکہ اس پدر شاہی معاشرے میں قوانین موجود ہونے کے باوجود کھلے عام پنچائتی نظام نے حوا کی بیٹی کا استحصال اپنا حق سمجھ رکھا ہے اور پولیس سمیت تمام ادارے ان کے حقوق اور عزت کے تحفظ میں ناکام ہیں۔ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد بھی میرے ذہن میں ایک سوال گردش کر رہا ہے کہ پنچائیت کے ایسے شرمناک فیصلوں کے وقت زمین کیوں نہیں پھٹتی اور آسمان کیوں نہیں کانپتا؟؟؟
فیس بک کمینٹ