آج 28جولائی 2017 کا تاریخی دن ہے۔ جب پاکستان میں پہلی بار احساس ہوا ہے کہ قانون سب سے بالا تر ہے۔آج پہلی بار دل سے آواز آئی ہے، پاکستان زندہ باد۔ پاکستان جسے پسے اور کُچلے ہوئے طبقات کو سہارا دینے کی خاطر تخلیق کیا گیا تھا۔محروم طبقات کے زخموں پر مرہم رکھنے کی خاطر ایک پوری نسل نے اپنی جان مال عزت آن انا سب کچھ قربان کیا تھا۔ مگر بدلے میں اُن کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ زخم مزید گہرے ہوئے، انا مزید کُچلی گئی،محرومیوں کے جنگل پہلے سے مزید گھنے ہوئے۔ غربت لاچاری بے بسی کی خاردار فصل نے نہ چادر کو سلامت رہنے دیا نہ چار دیواری کا خیال رکھا۔ غریب کا جو حال ستر برس پہلے تھا مزید ابتر ہوا۔پے در پے آمریت کے ناجائز قبضوں نے جمہوریت کی کھیتی کو اُجاڑ کر رکھ دیا۔ جمہوریت کے نام پر ایک ایسے مافیا نے جنم لیا جس نے انتخابات کو اندھی دولت کا کھیل بنا ڈالا۔پی پی پی اور مسلم لیگ ن کا سب سے بڑا کوئی قومی جُرم ہے تو وہ بدعنوانی سے پہلے انتخابات کے عمل کو پیسے کے زور پر مڈل کلاس کے پڑھے لکھے طبقے کے ہاتھ سے چھین لینا ہے۔ اب انتخابات صرف پیسے کا کھیل بن کر رہ گیا ہے۔ اس حد تک کہ جس کے پاس چند کروڑ ہیں بھی وہ بھی اس میدان میں اُترنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ سپیکر قومی اسمبلی نے اپنے سابق ضمنی الیکشن میں ایک ارب روپے خرچ کیے۔ مدمقابل نے بھی اسی حساب سے تجوری کا منہ کھولا۔حکمران جماعت کی سابق وزیر اطلاعات نے آج سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ سننے کے بعد میڈیا کا سامنا کیا۔ اور ڈھٹائی کی تمام حدوں کا پھلانگتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم اور اُن کے خاندان کا دامن صاف ہے۔ اُن کے خلاف بدعنوانی کا کوئی ثبوت آج تک نہیں ملا۔ پنجابی کی ایک کہاوت یاد آئی۔ کسی نے کسی بے شرم سے مخاطب ہو کر کہا، تمہارے ’’ پچھواڑے ‘‘ پر اک بوٹا اُگ آیا ہے۔ اس نے کہا کوئی بات نہیں یار چھاؤں میں بیٹھیں گے۔ حکمرانوں کے خلاف بدعنوانی کے ثبوت ملک کے اندر اور بیرون ممالک قدم قدم پر بکھرے پڑے ہیں۔ مے فیر والے فلیٹ تو اس تیس سالہ بدعنوانی کے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ اب کھاتہ کھلا ہے تو وہ دن بھی انشااللہ ضرور طلوع ہو گا جب غریب عوام کے منہ سے نوالے چھین کر اندرون اور بیرون ممالک جمع کی گئی دولت کی ایک ایک پائی کا حساب ہوگا۔ نہ صرف حکمرانوں کی لوٹ مار کا بلکہ ان کے ارد گرد جمع اُس سرکاری اور غیر سرکاری ٹولے کی بدعنوانی کا حساب بھی ہوگا۔آپ اس بات کا اندازہ بھی کریں تو نہیں کر سکتے کہ اس ٹولے نے کتنے بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا کھیل کھیلا۔ میں کل راولپنڈی صدر میں تھا۔ جہاں ایک دکان کی قیمت آٹھ سے دس کروڑ ہے ۔ وہاں وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری کا پلازہ تعمیر ہو رہا ہے۔ ایک بیس اکیس گریڈ کا سرکاری افسر اپنی ساری زندگی کی تنخواہ جمع کرے تو بھی وہاں ایک دکان خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔مگر وہاں کم وبیش ایک ایکڑ پر پلازہ تعمیر ہو رہا ہے۔ اس بات کی بھی مکمل تحقیق ہونی چایے۔ اور ایسی تمام جائدادیں بحق سرکار ضبط ہونی چاہیں ۔ جب تک ایسا کڑا احتساب نہیں ہوتا پاکستان کبھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔آج کا فیصلہ اُس وقت تک بار آور ثابت نہیں ہو سکتا جب تک اس حکمران ٹولے کے ایک ایک فرد کا احتساب نہیں ہو جاتا۔ رہا معاملہ جمہوریت اور سسٹم کا تو الحمدوللہ اسے کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ حکمرانوں کے دستر خوانوں سے پھینکی ہوئی ہڈیاں چوسنے والا نام نہاد دانشور ٹولہ عوام کو گمراہ کر رہا ہے کہ اس طرح سسٹم ڈی ریل ہو جائے گا۔ ہر گز نہیں۔ اس طرح سسٹم ڈی ریل نہیں ہوگا بلکہ ڈی ریل ہو چکا سسٹم اپنی پٹڑی پر چڑھ کر منزل کی طرف گامزن ہوگا۔عوام اب جان گئے ہیں کہ جمہوریت اور سیاست دانوں کی بدعنوانی دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ جمہوریت ہماری بقا ہے۔یہ واحد راستہ ہے جو منزل کی طرف جاتا ہے۔ عوام کبھی غیر جمہوری قوتوں کی حکمرانی کو قبول نہیں کریں گے۔ وہ سول بالا دستی پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن جمہوریت کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا دروازہ اب بند ہو جانا چاہیے۔ ،مسلم لیگ ن اگر چاہے تو اس فیصلے کے اثرات سے خود کو بچا سکتی ہے۔ قدرت نے اسے اپنے اندر جمہوریت کا بیج بونے کا نادر موقع فراہم کیا ہے۔ میرٹ پر اس جماعت کے اندر انتخابات ہوں۔نچلی سطح سے اوپری تک جمہوری طور طریقوں سے عہدے اور ذمہ داریاں تقسیم ہوں تو یہ جماعت تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بننے سے بچ سکتی ہے۔بشرطیکہ دانیال عزیزوں ، طلال چودھریوں اور عابد شیر علی جیسوں سے اپنا دامن بچاسکے ۔ اور چودھری نثار جیسے منجھے ہوئے سیاست دانوں کی بات پر کان دھر سکے تو۔سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کو خراج تحسین پیش کرنے سے پہلے ہم سب کو جے آئی ٹی کے ایک ایک ممبر کی ہمت کی داد دینی چایے۔ جو ترغیب اور دھونس کے تند ریلوں کے سامنے ڈٹے رہے۔ اُن کے پائے استقلال میں لغزش آئی نہ قدم ڈگمگائے۔ پاکستان کو ایسے ہی عالی ہمت اور بلند کردار افسروں کی ضرورت ہے نہ کہ اپنے عہدوں کا رس نچوڑ کر پلازے تعمیر کرنے والوں کی۔اس فیصلے کو سُن کر عوام کے چہروں پر مسکراہٹ آئی ہے، جو مسکرانا بھول گئے تھے۔ جیسے اُمید کے سوکھے دھانوں پر کوئی گھٹا برسے۔ اور چاروں اور جل تھل کر دے۔ پہلی بار پاکستان کے چہرے پر اس فیصلے سے اُمید پیدا ہوئی ہے۔ قانون کی حکمرانی کی اُمید۔ اپنے کھوئے ہوے حقوق کے واگزار ہونے کی اُمید۔دیکھے گئے خوابوں کی تعبیر ملنے کی اُمید۔آؤ مل کر بولیں، پاکستان زندہ باد۔
فیس بک کمینٹ