جب پوری قوم مٹھائیاں تقسیم کررہی ہے ،ڈھول بجارہی ہے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہی ہے تو حب الوطنی کاتقاضایہی ہے کہ ہم بھی اس جشن میں شریک ہوجائیں۔ ظاہرہے اگر پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے منتخب وزیراعظم کو نااہل قراردے کر گھر بھیج دیا ہے تو صالحین کی طرح ہمیں بھی اس فیصلے کو تاریخی قراردینا چاہیے اور یہ کہنا چاہیے کہ یقیناً اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ ہوجائے گا ۔اگر احتساب کاعمل شروع ہوا ہے اور منتخب وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ اس کی زد میں آئے ہیں تو یقیناً یہ ایک غیر معمولی بات ہے۔ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اس فیصلے کے ملکی سیاست پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے اور مستقبل میں اب کوئی بھی منتخب وزیراعظم اختیارات کے ناجائز استعمال ،جعل سازی اور دروغ گوئی کی کوشش نہیں کرے گا کہ ایسے کاموں کے لئے غیرمنتخب افراد جو موجود ہیں۔
آپ کے ذہن میں یہ سوال یقیناً ابھرا ہوگا کہ اس تاریخی فیصلے میں آخر غیرمعمولی بات کون سی ہے۔کیا منتخب وزرائے اعظم اس سے پہلے کبھی احتساب کی زد میں نہیں آ ئے؟ کیا عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والوں کو پہلی بار اس طرح بے توقیر کیا جارہا ہے؟ اور کیا ماضی میں وزرائے اعظم کی ایوان سے اس طرح رخصتی کی کوئی اورمثال موجودنہیں؟آپ ان سوالات میں یقیناً حق بجانب ہوں گے کہ ماضی قریب اور ماضی بعید میں ہم نے ہمیشہ وزرائے اعظم کو اسی طرح ایوان اقتدار سے اپنی مدت پوری کیے بغیر رخصت ہوتے دیکھا ہے۔اس حوالے سے نام دہرانے کی سردست کوئی ضرورت ہی نہیں کہ یہ سب نام گزشتہ تین چارروز سے سوشل میڈیا پر پہلے ہی گردش کررہے ہیں۔ہاں اس فہرست میں جو پہلے یوسف رضاگیلانی پر ختم ہورہی تھی اب نوازشریف کے نام کابھی اضافہ ہوگیا ہے۔یہ سوال تسلسل کے ساتھ کیا جارہاہے کہ آخر وزرائے اعظم اپنے اقتدار کی مدت پوری کیوں نہیں کرتے اور انہیں کسی نہ کسی بہانے گھر کیوں بھیج دیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے ہم نے 26جولائی کو ایک محتاط کالم کسی پیشگوئی کے بغیر تحریر کیاتھا اس میں تفصیل کے ساتھ ان تمام عوامل کاذکر کیا گیااور یہ بتایاگیا تھا کہ بدقسمتی سے ہم ایک حکمران کو ڈکٹیٹر قراردے کر اقتدار سے الگ کرتے ہیں اور پھر جمہوریت کی بحالی کے لئے کسی نئے ڈکٹیٹر کے خلاف جدوجہد شروع کردیتے ہیں۔آپ اسے دائرے کا سفر بھی کہہ سکتے ہیں اور میوزیکل چیئرز کا کھیل بھی قراردے سکتے ہیں کہ اس کھیل میں میوزک کہیں اور سے چلایا جارہا ہوتاہے۔پانامہ کیس کے حوالے سے ہمارا پہلے بھی یہ موقف رہا کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے بے رحمی کے ساتھ سب کا یکساں احتساب ضروری ہے۔جب تک طاقت ور افراد احتساب کے دائرے میں نہیں آ تے اس وقت تک ہمیں پاکستان کے روشن مستقبل کا خواب نہیں دیکھنا چاہیے۔ (طاقتور افراد کون ہیں اس بارے میں کسی وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں)
سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ اس حوالے سے یقینی طورپر اہمیت کاحامل ہے کہ نوازشریف خاندان اس کے نتیجے میں پہلی بار احتساب کی زد میں آیا ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم، ان کے بچوں ،داماد اور سمدھی کے خلاف نیب کو ریفرنس بھیجنے کی ہدایت کی ہے اور سب کے خلاف مقدمات درج کرنے کاحکم بھی صادر کیا ہے۔اس فیصلے پر سب کو حیرت بھی اسی لیے ہوئی کہ 1985ءکے بعد سے نوازشریف اور ان کا خاندان تسلسل کے ساتھ اقتدار میں تھا اوربے پناہ دولت،غیر ملکی حکمرانوں اوراسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کی بنیادپر کوئی یہ گمان بھی نہیں کرتا تھا کہ یہ پورا خاندان اس طرح گرفت میں آ جائے گا۔ احتساب کی زد میں اس سے پہلے ہم نے مسلسل بھٹو خاندان کو ہی دیکھاتھا۔ پہلے ذوالفقارعلی بھٹو کو منظر سے ہٹایاگیا۔ اس کے بعد ان کے دونوں بیٹے شاہ نواز بھٹو اور مرتضی بھٹو قتل کیے گئے اورپھرمحترمہ بے نظیربھٹوکوبھی شہید کردیاگیا۔نصرت بھٹو ذہنی توازن کھوبیٹھیں اور پھرایک روز وہ بھی گڑھی خدابخش میں آسودہ خاک ہوگئیں۔ بھٹو خاندان کے وارث کے طورپر جونیئر بھٹو کانام جب تسلسل سے لیا جانے لگا تومعلوم ہوا کہ موت کے کھیل سے خوف زدہ ہوکر اس نوجوان نے بھی اپنی زندگی کا رخ تبدیل کرلیا ہے۔سیاست کے منظر پر پاکستان میں اس ایک خاندان کی بنیادی حیثیت تھی اور نوازشریف خاندان بھٹو خاندان کے حریف کے طورپر بھی سیاست میں آیا تھا۔
یہاں یہ سوال ضرورپیدا ہوتا ہے کہ بھٹو خاندان کے منظر سے اوجھل ہوجانے کے بعد کیا اب نوازشریف خاندان کو بھی سیاست کے افق سے غائب کرنا مقصود ہے؟کہنے والے بہت کچھ کہہ رہے ہیں ۔بہت سی کہانیاں سنائی جارہی ہےں ۔ یہ ایک یقینی بات ہے کہ اقتدار پر گرفت ختم ہونے کے بعد نوازشریف شاید اب اپنی پارٹی پر بھی گرفت مضبوط نہیں رکھ سکیں گے۔ وہ پارٹی جو انہی کے دم سے قائم تھی کیا نوازشریف کے بعد اپنا وجود برقرار رکھ سکے گی۔پاکستان پیپلزپارٹی میں آصف علی زرداری پر بھی کرپشن کے بہت سے الزامات ہیں۔ آصف زرداری اورنوازشریف کواگر منظر سے اوجھل کردیا جائے تو پھر وہی فارمولا ذہن میں آتا ہے جوایم کیو ایم کے لیے استعمال کیاگیا۔ مائنس الطاف فارمولا ، اس کے بعد اب مائنس نوازاور مائنس زرداری فارمولا۔رہ گئے عمران خان تو مکافات عمل یقینی طورپر انہیں بھی لپیٹ میں لے گا۔ 4 اگست کوان کے مستقبل کا کیا فیصلہ ہوگااس بارے میں سردست کچھ نہیں کہا جاسکتا ، لیکن خود عمران خان یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر میری نااہلی کی قیمت پر نوازشریف کو بھی نااہل قراردیاجاتا ہے تو یہ گھاٹے کاسودانہیں ہوگا۔ عمران خان کے ساتھ ہی ایک تلوار جہانگیر ترین کے سر پربھی لٹک رہی ہے ۔جہانگیر ترین اور عمران خان کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں اسٹیبلشمنٹ کا منہ زور نمائندے کے طورپرشاہ محمود قریشی ہی باقی رہ جائیں گے۔ گلیاں جب سنجیاں ہوجائیں گی تو پھران میں مخدوم صاحب کوگھومنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ عوام میں مقبول تمام سیاسی جماعتوں کا مستقبل اس منظرنامے میں مخدوش ہی دکھائی دیتا ہے ۔ شہبازشریف کا ذکر ہم نے شریف خاندان کی فہرست میں دانستہ نہیں کیا ۔ سردست ان پر کوئی الزام بھی دکھائی نہیں دے رہا لیکن جب اسحاق ڈار کی وجہ سے حدیبیہ پیپرز ملز کا کیس ری اوپن ہوگا تو شہبازشریف بھی یقینی طورپر اسی فہرست میں شامل ہوجائیں گے جس میں نوازشریف خاندان کے باقی افراد شامل ہیں۔
مستقبل کا نظام تو بہرحال چلانا ہی ہوگا ۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کے خلاف تو یقینی طورپر کوئی سازش نہیں ہورہی ۔اس لیے اسٹیبلمشنٹ کے ذہن میں آنے والے سیٹ اپ کے لئے کوئی نہ کوئی منصوبہ توضرور ہوگا۔پہلا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ(ن) نوازشریف کی سبکدوشی کے بعد آئندہ 45 دنوں میں اپنا کوئی وزیراعظم منتخب کرا سکے گی کہ ایوان میں اکثریت ہونے کے باوجود اراکین قومی اسمبلی ہوا کا رخ دیکھیں گے اور ماضی کی روایات تو یہی بتاتی ہیں کہ ہوا کا رخ بھی انہیں کوئی اور ہی دکھائے گا۔اور اگر آئندہ انتخابات کسی ”غیرجانبدار“ نگران حکومت نے کروائے تو ایک بات طے ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو اس کے لئے بھان متی کا کبنہ ضرور جوڑنا پڑے گا ، اور یہ جو کہیں کی اینٹیں اور کہیں کے روڑے پی ٹی آئی، ق لیگ اورپاک سرزمین پارٹی میں جمع کیے گئے ہیں یہ اسی موقع پر اسٹیبلمشنٹ کے کام آئیں گے۔بھان متی کاکنبہ جوڑنے میں کمانڈو مشرف کا کیا رول ہوگا اس بارے میں ہم اپنی رائے محفوظ رکھتے ہیں ۔سردست حب الوطنی کاتقاضا یہی ہے کہ ہم بھی منتخب وزیراعظم کی رخصتی پر منائے جانے والے جشن میں شریک ہوجائیں۔بصورت دیگر ہم پر کرپشن کی حمایت کا الزام لگ سکتا ہے اور ہم بھی آرٹیکل 62 اور 63 کی زد میں آسکتے ہیں۔
فیس بک کمینٹ