نواز شریف نااہل ہوئے ۔ انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ کہنے والے کہتے رہیں گے کہ اگر وہ اس فیصلہ سے پہلے استعفیٰ دے دیتے تو انہیں اس ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور ایسی توہین بھی نہ ہوتی ۔ لیکن نواز شریف خود اور ان کے قریب ترین مشیر اب بھی اپنے فیصلوں اور حکمت عملی کو درست سمجھتے ہوئے نیا راستہ تلاش کرنے اور اس فیصلہ کے بعد نقصان سے قطع نظر، اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی منصوبہ بندی کررہے ہوں گے۔ گو کہ سب سے پہلا کام نئے وزیر اعظم کا چناؤ ہے۔ وہ کون ہوگا اور پارٹی کو کون آگے لے کر چلے گا۔ لیکن یہ سارے مسئلے شکست خوردہ نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے ہیں۔ اہل پاکستان کو بطور قوم خوشی اورجوش کے ان لمحات میں نیا ولن تلاش کرنے کی فکر کرنی چاہئے۔ گزشتہ چار برس ہم نے نواز شریف کو ملک کا سب سے بڑا دشمن اور مفادات کا قاتل قرار دے کر اچھا وقت گزارا۔ اب ان کے جانے کے بعد گالیاں نکالنے اور اپنی ناکامیوں کا بوجھ کسی کے گلے میں ڈالنے کے لئے ہمیں جلد از جلد ایک متبادل کی ضرورت ہوگی۔
انتہا پسندی شاید ہمارے خون میں سرایت کرچکی ہے۔ آج سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد توازن سے اس کا تجزیہ کرنے اور ملکی سیاست کے علاوہ قانون کی صراحت اور تفہیم اور پارلیمنٹ کے اختیار کے بارے میں غور و فکر کرنے کی بجائے یا تو مٹھائیاں بانٹی جا رہی ہیں یا سوگ کی کیفیت طاری ہے۔ نواز شریف کے کچھ ہمدرد ضرور ان کے مستقبل کے بارے میں پریشان ہوں گے لیکن ان کے بیشتر ساتھی یعنی مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ ارکان یہ غور کررہے ہوں گے کہ نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے بعد اب اس پارٹی میں ان کا کیا مستقبل ہے۔ اب ان کا کیا بنے گا۔ اس صورت میں ملک و قوم کے حوالے سے سوچنے والے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ مقابلے میں فریق کے طور پر ہار جیت کا بوجھ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اسی لئے نعروں کی گونج، مٹھائیاں بانٹنے کی صدا اور کامیابی کے شادیانے ہیں اور دوسری طرف اس شکست کو مستقبل کی جیت میں بدلنے کی خواہش۔ اس بیچ وہ درجنوں ارکان اسمبلی جنہیں سال بھر بعد ہونے والے انتخاب میں اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہو چکی ہوگی۔ اور سب سے بڑھ کر سیاسی پارٹیاں جو اپنا اپنا جال لئے مسلم لیگ (ن) کے ’بھگوڑوں‘ کو پھنسانے اور ان کے ذریعے اپنی کامیابی کا امکان پیدا کرنے کی کوششوں کا آغاز کر چکی ہیں ۔ جو اب مزید تیز ہو جائیں گی۔
اس دوران سب سے بری حالت ان نعرہ لگانے والوں کی ہوگی جنہیں سب سیاسی لیڈروں نے مل کر مستقل طور سے اپوزیشن میں رہنے اور ہر دم ایک دشمن تلاش کرنے اوراس کے خلاف نعرے لگانے کی عادت ڈال دی ہے۔ ان لوگوں کو ہفتہ عشرہ تو نواز شریف کے جانے اور ملک میں خوش قسمتی کا دور واپس آجانے کے وعدہ پر خوش رہنے اور گلا پھاڑ نعرے لگانے کے کام پر لگایا جا سکے گا لیکن جوں جوں وقت بیتے گا اور نہ چولہوں کی گیس کی مقدار میں اضافہ ہوگا، نہ دکاندار کم قیمت پر اشیائے صرف فروخت کریں گے، نہ امریکہ کے تقاضے ختم ہوں گے اور نہ بھارت کے دباؤ میں کمی آئے گی۔ نہ انفرادی فائدہ کے آثار دکھائی دیں گے اور نہ قومی سطح پر اچھی خبریں سننے کو ملیں گی تو ایسے میں ایک بار پھر ایسے نشانے کی ضرورت پڑے گی جس کی طرف اشارہ کرکے نعروں اور’ گو فلاں گو‘ کا سلوگن عام کرکے یہ واضح کیا جاسکے کہ اصل مسئلہ تو اس کی وجہ سے ہے۔
ملک کے لوگوں کو اس وقت ایک ولن کے جانے پر مٹھائیاں بانٹنے کی بجائے یہ فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ اب ان کا کیا بنے گا۔ اب وہ کس کو برا بھلا کہہ کر یہ دعویٰ کرسکیں گے کہ ان کے سارے مسائل اس بد نیت، بے ایمان اور نااہل لیڈر کی وجہ سے ہیں۔ عمران خان نے اٹھارہ سال محنت کے بعد نواز شریف تلاش کیا تھا۔ اب وہ نئے ’نواز شریف‘ کی تلاش میں مزید 18 برس صرف کرنے پر تیارنہیں ہوں گے۔ تو کیا وہ خود نواز شریف کی جگہ لینے کے لئے تیار ہیں۔ ایسی صورت میں انہیں جان لینا چاہئے کہ نہ اس ملک کے مسائل حل ہوں گے اور نہ ولن کی تلاش میں کمی آئے گی۔
ہمیں نعرے لگانے اور اپنا بوجھ دوسروں پر ڈالنے کی عادت ہو چکی ہے۔ ہمیں نیا نظام نہیں، نیا ولن چاہئے۔ سب ملک کر اسے تلاش کریں تو کارخانہ حیات پاکستان آگے بڑھے۔
(بشکریہ:کاروان ۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ