پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد 30 نومبر 1967 کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر رکھی ۔ پیپلزپارٹی کے قیام کو پچاس سال مکمل ہوگئے ہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سحر انگیز شخصیت نے عام آدمی کو اپنی طرف کھینچا انہوں نے ملک کو متفقہ آئین دیا ، ایٹمی طاقت بنانے کی بنیاد رکھی ۔ اسلامی ممالک کو متحد کیا ۔ جولائی 1977 میں ذ والفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کو ضیاء الحق نے برطرف کردیا ۔ ان کیخلاف نواب محمد احمد خاں کے قتل کا مقدمہ چلا ۔ 18 مارچ 1978 کو لاہور ہائیکورٹ نے پھانسی کی سزا سنائی ۔ سپریم کورٹ نے بھٹو کی پھانسی کے خلاف اپیل 6 فروری 1979 کو نامنظور کی اور 24 مارچ 1979 کو نظرثانی کی درخواست بھی نامنظور کردی، انہیں 4 ا پریل کی صبح دو بج کر پانچ منٹ پر تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ۔ اس کے بعد پیپلزپارٹی تین مرتبہ اقتدار میں آئی ۔ اس وقت بھی پیپلزپارٹی کی قومی اسمبلی میں 47 نشستیں ہیں ان کا اپوزیشن لیڈر ہے ، جبکہ سینیٹ میں 26 نشستوں کیساتھ اکثریت ہے ، اپوزیشن لیڈر اور سینٹ کا چیئرمین پیپلزپارٹی کا ہے جبکہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے ۔
المیہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے کرتا دھرتا بھٹو کی پھانسی کے وقت اس اقدام کیخلاف ایک لفظ نہ بولے ۔ انہی افراد کے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو کی جیل کے دوران بڑی سخت رائے تھی۔ اس کا ذ کر انہوں نے اس وقت جیل کے سیکورٹی کمانڈر لیفٹننٹ کرنل رفیع الدین سے کئی بار کیا کرنل رفیع الدین اپنی کتاب بھٹو کے آ خری 323 دن میں لکھتے ہیں کہ
"جب بھٹو صاحب 1978 میں راولپنڈی جیل منتقل ہوئے تو پارٹی سے بڑے پر امید تھے کہ ان کے حق میں آواز بلند کرے گی لیکن 1979 کے اوائل میں ان کی امیدیں کم ہوتی گئیں ۔ ا یک دن مایوسی کے عالم میں لیفٹننٹ کرنل رفیع الدین سے اپنی پارٹی کے عہدیداروں کو گالی دیتے ہوئے مخاطب ہوکرکہا کہ وہ کہاں ہیں جو کہا کرتے تھے کہ ہم اپنی گردنیں کٹوادیں گے لیکن بھٹو کو کچھ نہیں ہونے دیں گے ۔ تم ان منافق سرفروشوں کو بتادینا کہ بھٹو آ خری وقت میں ان سے ناخوش تھا ۔ اس میں شک نہیں کہ کارکنوں کی ایک معمولی سی تعداد جو صرف غریب اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھتی تھی ان جیلوں میں بند تھی لیکن اصلی فائدہ اٹھانے والے پارٹی کے بہت سے لیڈر اس نازک وقت میں چھپے بیٹھے تھے ۔ جب بھٹو صاحب کی سپریم کورٹ سے بھی درخواست مسترد ہوگئی اور پارٹی لیڈروں نے بھی خاموشی کا مظاہرہ کیا تو وہ کافی ناامید ہوئے پھانسی کی رات اپنی پارٹی سے مایوس ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ میری پارٹی مردہ بھٹو دیکھنا چاہتی ہے نہ کہ زندہ ۔
بھٹو کےنام کو پچھلے اڑتیس سالوں میں اس جماعت کے لیڈروں نےاستعمال کیا اور عوام سے ووٹ لیے لیکن کسی نے اس وقت آ واز نہ اٹھائی ان کے بارے میں ذوالفقار بھٹو اپنے آ خری وقت میں بہت کچھ کہہ گئے انہی کے نام پر اسی پارٹی نے تین مرتبہ اقتدار حاصل کیا ۔ لیکن اس فیصلے کیخلاف کوئی عملی اقدام نہ کیا ۔
پیپلزپارٹی کی باگ ڈور اب ذوالفقار بھٹو کے نواسے بلاول کے پاس ہے انہیں اس وقت اپنے ابن الوقت پارٹی لیڈروں پر نظر رکھنی چاہیے۔ اور مستقبل کے فیصلے ذوالفقار علی بھٹو کے آ خری وقت کی صورتحال کو سامنے رکھ کر نا ہونگے ۔ کیونکہ یہی ابن الوقت پارٹی لیڈر انہیں اسٹیبلشمنٹ کی مریدی کے مشورے دے رہے ہیں جو اس وقت جب اسٹیبلشمنٹ نے بھٹو کیخلاف جھوٹاکیس بنایا تو خاموش تھے ۔
فیس بک کمینٹ