جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کی طرف سے ملک میں مارشل لا لگانے کی ناکام کوشش کے بعد اب انہیں پارلیمنٹ میں مواخذے کا سامنا ہے۔ اگرچہ اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کو مواخذے کے لیے درکار دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہے لیکن حکمران پیپل پاور پارٹی کے متعدد ارکان بھی صدر کی طرف سےمارشل لا لگانے کے یک طرفہ فیصلہ کے خلاف ہیں۔
یہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ممکنہ طور پر جمعہ کو مواخذے کی تحریک پر پارلیمنٹ میں ووٹنگ ہوسکتی ہے اور اپوزیشن سرکاری بنچوں پر موجود ارکان کی مدد سے 300 کے ایوان میں دو تہائی اکثریت یعنی دو سو ارکان کی حمایت حاصل کرسکتی ہے۔ اس طرح صدر یون کے اختیارات معطل ہوجائیں گے اور سپریم کورٹ انہیں برطرف کرنے کا حتمی فیصلہ کرے گی۔ صدر یون سک یول نے منگل کو قوم سے خطاب میں اچانک مارشل لا لگانے کا اعلان کیا تھا ۔ ان کا کہنا تھا ’آئین کے تحفظ کے لیے ان کے پاس اس اقدام کے سوا کوئی چاہ نہیں تھا‘۔ انہوں نے مارشل لا کے نفاذ کے لیے پارلیمان میں اپوزیشن جماعتوں کو موردالزام ٹھہرایا ۔ قوم سے خطاب میں صدر یون سک یول نے اپوزیشن پر پارلیمنٹ کو کنٹرول کرنے، شمالی کوریا کے ساتھ ہمدردی رکھنے اور ریاست مخالف سرگرمیوں سے حکومت کو مفلوج کرنے کا الزام عائدکیا تھا۔
لیکن پارلیمنٹ کی فوری قرار داد اور عوام کی طرف سے شدید رد عمل کے بعد انہیں چند گھنٹے بعد ہی یہ حکم واپس لینا پڑا۔ اگرچہ ماضی میں جنوبی کوریا میں طویل المدت فوجی حکومتیں قائم رہی ہیں لیکن چند دہائیوں ہی میں وہاں پر جمہوریت کے ساتھ عوام کی وابستگی گہری ہوئی ہے۔ اسی لیے ایک بار پھر ملک پر آمریت مسلط کرنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ جنوبی کوریا میں صدارتی نظام رائج ہے جس کے مطابق صدر کو براہِ راست انتخاب میں منتخب کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ 300 رکنی پارلیمنٹ کے 80 فی صد ارکان براہ راست ووٹنگ سے منتخب ہوتے ہیں۔ بقیہ 20 فی صد متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت منتخب ہوتے ہیں۔
تاہم ملک میں مارشل لا لگانے کے غیر معمولی اقدام کے خلاف صدر کی حامی پیپل پاور پارٹی کے 18ارکان نے بھی اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی مدد سے 37 سال بعد ملک میں مارشل لا لگانے کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔ پارلیمنٹ نے 190 ارکان کی حمایت سے مارشل لا کا حکم واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ جنوبی کوریا کے آئین کے مطابق پارلیمنٹ میں قرارداد منظور ہونے کے بعد صدر مارشل لا کا حکم واپس لینے کا پابند ہے۔ تاہم صدر یون کے اس غیر متوقع فیصلہ کے خلاف پارلیمنٹ کی قرارداد کے علاوہ عوام کا فوری اور شدید رد عمل بھی صدر پر دباؤ میں اضافہ کا سبب بنا ۔مارشل لا لگانے کا اعلان ہوتے ہی لوگوں کی بڑی تعداد صدارتی فیصلہ کے خلاف پارلیمنٹ کے باہر جمع ہوگئی ۔ اس طرح پارلیمنٹ کی اکثریت کے علاوہ صدر یون کو عوامی احتجاج کی وجہ سےاپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔
اس حوالے سے دو پہلو اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک یہ کہ اگرچہ جنوبی کوریا میں مارشل لا کا اعلان کیا گیا تھا لیکن یہ اعلان کسی فوجی جنرل نے نہیں کیا تھا۔ اور نہ ہی غیر آئینی طور سے پارلیمنٹ توڑنے یا منتخب حکومت کو برطرف کرنے کا اقدام دیکھنے میں آیا ۔ بلکہ صدر یون سک یول نے آئینی اختیار کے تحت ہی منگل کو قوم سے خطاب میں مارشل لا لگانے کا اعلان کیا تھا۔ ملکی آئین میں صدر کو جنگ یا جنگ کے سنگین خطرہ کے پیش نظر مارشل لا لگانے اور خصوصی اقدامات کا اختیار حاصل ہے۔ اسی لیے صدر یون نے شمالی کوریا کے خطرے کا حوالہ دیتے ہوئے اپوزیشن پر ہمسایہ دشمن ملک کے ساتھ ساز باز کا الزام لگایا۔ البتہ وہ کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے۔ اس حوالے سے دوسرا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ مارشل لا لگنے کے باوجود فوجی دستوں نے ذبردستی کرنے یا پارلیمنٹ کو کا م کرنے سے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ لوگوں کی بڑی تعداد نے مارشل لا کے خلاف مظاہرہ کیا لیکن عوامی جذبات کا یہ مظاہرہ پر امن اور منظم تھا۔ کسی باقاعدہ نوٹس کے بغیر جمہوری حق کی حفاظت کرنے کے لیے لوگوں کی بڑی تعداد کسی پارٹی کی اپیل کے بغیر ہی گھروں سے باہر نکل آئی اور پارلیمنٹ کی حمایت کااعلان کیا ۔
صدر کی تقریر کے بعد ارکان کی بڑی تعداد دھڑا دھڑ پارلیمنٹ پہنچی اور کسی تاخیر کے بغیر واضح اکثریت سے مارشل لا کے خلاف قرار داد منظور کرلی گئی۔ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ صدارتی حکم کے مطابق جب فوج حفاظتی نقطہ نظر سے پارلیمنٹ پہنچی تو وہاں کے سکیورٹی گارڈز نے فوجی دستے کو عمارت میں داخل ہونے سے روک دیا۔ فوجیوں نے اس موقع پر طاقت استعمال کرنے یا صدر کے حکم کا عذر پیش کرتے ہوئے پارلیمنٹ پر ذبردستی قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ معاملہ ایک منتخب صدر کی طرف سے اپنے آئینی اختیار کو ناجائز طور سے استعمال کرنے پر شروع ہؤا اور پارلیمنٹ نے آئینی طور سے ہی اس حکم کو مسترد کردیا۔ صدر یون نے پارلیمنٹ کے فیصلہ کے بعد اپنا حکم مسلط کرانے کی کوشش کرنے کی بجائے پسپائی اختیار کرنے ہی میں عافیت سمجھی۔
سوال یہ ہے کہ ایک بار انتہائی اقدام کرنے کے بعد وہ کون سا خوف تھا جس نے صدر یون کو اپنا حکم واپس لینے اور سیاسی مستقبل داؤ پر لگانے پر مجبور کیا؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ عوامی شعور نے انہیں پسپا ہونے پر مجبور کیا۔ جنوبی کوریا کے عوام نے جمہوری عمل جاری رکھنے کے حق میں آواز بلند کی تھی۔ صدر یون نے اگرچہ آئینی اختیار کے تحت ہی مارشل لا لگایا تھا لیکن یہ فیصلہ درحقیقت پارلیمنٹ میں طاقت ور اپوزیشن کو دبانے کے مقصدسے کیا گیا تھا۔ صدر یون سک یول 2022 میں کامیابی کے بعد سے اپنے متعدد فیصلے نافذ کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے کیوں کہ ان کی پارٹی کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نہیں ہے۔ صدر کا خیال ہوگا کہ مارشل لا کی آڑ میں وہ ایسے فیصلے نافذ کرسکیں گے جو مضبوط اپوزیشن قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
یہ ایک ایسی دلچسپ صورت حال جس سے جمہوریت کے لیے مسلسل جد و جہد کرنے والے پاکستان میں متعدد سبق سیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک تو حال ہی میں عدالیہ کے مقابلے میں پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے اور بااختیار ثابت کرنے کے لیے 26 ویں آئینی ترمیم لانے والی سیاسی پارٹیوں کو غور کرنا چاہئے کہ وہ ایسی ہی کوئی ترمیم سول معاملات میں فوجی مداخلت کے خلاف کیوں نہیں لاسکے؟ اگر پاکستان میں بھی کسی انتہائی صورت میں مارشل لا لگانے جیسا فیصلہ کرنے کا اختیار صدر، وزیر اعظم یا پارلیمنٹ کو تفویض ہوجائے تو فوج کی طرف سے کسی بھی لمحے طاقت کے زور پر اقتدار سنبھالنے کا اندیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں مسلسل یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سیاست میں فوج کی مداخلت قابل قبول نہیں ہے۔ یہ دعویٰ فوجی قیادت بھی کرتی ہے اور سیاسی لیڈر بھی اپنے اپنے طور پر اس کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن سیاسی پارٹیوں نے اس ناگہانی مشکل کا راستہ روکنے کے لیے کبھی کوئی آئینی ترمیم کرنے کے لیے تعاون نہیں کیا۔ بلکہ ملک کی ہر پارٹی کسی نہ کسی طرح عسکری چھتر چھایہ میں کسی بھی طرح اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس وقت بھی عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف ’حقیقی جمہوریت‘ حاصل کرنے کا خواب دکھاتی ہے لیکن اس کے لیے جو راستہ تجویز کیا جاتا ہے، وہ درحقیقت ملک کو جمہوریت سے ہمیشہ کے لیے دور کرسکتا ہے۔
اس حوالے سے جنوبی کوریا کے عوام کا منظم احتجاج اور پر امن طریقے سے اپنی بات منوانے کا شعور بنیادی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس پر توجہ دینے اور اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ صدر کے اعلان کے بعد کسی گروہی تخصیص کے بغیر لوگوں کی بڑی تعداد صرف پارلیمنٹ کی حفاظت اور ملک میں جمہوری تسلسل کے لیے گھروں سے باہر نکلی۔ اسی طرح پارلیمنٹ کے اندر سیاسی پارٹیوں نے اس پر بحث نہیں کی کہ چونکہ صدر کا تعلق ایک خاص پارٹی سے ہے، اس لیے اس کی پارٹی ہر قیمت پر انہیں بچانے کی کوشش کرے گی۔ اس کی بجائے متعدد ارکان نے صدر کی پارٹی کا رکن ہونے کے باوجود اس فیصلہ کو ملک اور جمہوریت کے لیے غلط سمجھا ۔ اور اسے مسترد کرنے کی قرار داد منظور کی۔ اسی لیے مختصر وقت میں صدر کے حکم کے خلاف قرارداد منظور کرلی گئی اور صدر کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
1950 میں آزادی کے بعد سے جنوبی کوریا میں طویل عرصہ تک فوجی آمریت قائم رہی تھی۔ فوجی بغاوت کے نتیجے میں پہلی حکومت 1961 میں قائم ہوئی اور 1979 تک پارک چنگ ہی نے فوجی آمریت مسلط رکھی۔ انہیں اکتوبر 1979 میں ان کے انٹیلی جنس چیف نے قتل کردیا۔ ابھی سول انتظام کی کوئی شکل سامنے نہیں آئی تھی کہ میجر جنرل چن دو ہوان نے دسمبر 1979 میں ملک میں ایک بار پھر فوجی حکومت مسلط کردی۔ ان کے دور حکومت میں جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کرنے والوں کو سختی سے کچلا گیا اور سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے۔ البتہ 1987 میں چن دوہوان کو براہ راست صدر منتخب کرنے کا مطالبہ منظور کرنا پڑا۔ اس کے بعد سے سیاسی پارٹیوں نے اختلافات سے قطع نظر ملک میں جمہوری مزاج مستحکم کرنے اور آئینی حکومت کے لیے عوامی شعور مضبوط کیا۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد سیاسی لیڈروں پر کرپشن کے الزامات اور پارلیمنٹ میں شدید سیاسی تقسیم کے باوجود جمہوری عمل تسلسل سے جاری ہے کیوں کہ اس کی حفاظت کے لئے جنوبی کوریا کے عوام کسی شخصیت پرستی سے قطع نظر کمر بستہ رہتے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں و لیڈروں کا ایسا کردار دیکھنے میں نہیں آتا۔ نہ ہی سیاسی جد و جہد کو پر امن طریقے سے نتائج حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جنوبی کوریا میں رونما ہونے والے واقعات سے اہل پاکستان یہ سیکھ سکتے ہیں کہ جمہوریت ایک اصول ہے جسے کسی فرد کی خواہشات کے لیے قربان نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ جمہوری عمل اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب تشدد سےمکمل گریز کی پالیسی اختیار کی جائے اور اسے کسی صورت سیاسی جد و جہد کا حصہ نہ بنایا جائے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ