وزیر اعظم نواز شریف نے ملک کی اقلیتوں کو یقین دلایا ہے کہ وہ حکومت کے سربراہ کے طور پر اس ملک میں ہر عقیدہ کے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کریں گے۔ کراچی میں ہولی کے تہوار پر ہندوؤں کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ملک میں کسی کو دوسرے پر اپنا عقیدہ ٹھونسنے کا اختیار نہیں ہے۔ یہ ملک ایک عقیدہ کے لوگوں کی دوسروں پر حکمرانی کے لئے نہیں بنایا گیا تھا بلکہ یہاں سب عقائد کو برابر حقوق حاصل ہیں۔ وزیر اعظم کی یہ باتیں انتہائی مثبت اور ضروری ہیں۔ ملک میں عقیدہ اور مسلک کی بنیاد پر نفرت اور ایک دوسرے پر کفر کے فتوے مسلط کرنے کا رجحان موجود ہے۔ ایسے ماحول میں ملک کا وزیر اعظم اگر اس قدر وضاحت اور دو ٹوک الفاظ میں عقیدہ کے حق اور اپنے اصولوں پر زندگی گزارنے کے حق کی بات کرتا ہے تو اس سے معاشرہ میں اس متبادل بیانیہ کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی جس کے بارے میں نواز شریف گزشتہ دنوں لاہور کے اجتماع میں بات کرچکے ہیں۔
یہ بات بانئ پاکستان بھی صراحت سے کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کے حصول کا مقصد کسی ایک مذہب کو دوسرے پر ترجیح دیتے ہوئے اقلیتوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنا نہیں تھا۔ تاہم گزشتہ ستر برس کی تاریخ میں پاکستانیوں نے اس حوالے سے کسی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ پہلے چھوٹے اقلیتی گروہوں کے خلاف مہم جوئی ہوتی رہی ہے لیکن گزشتہ تین چار دہائیوں سے مسلمانوں کے درمیان مسلک اور طریقہ عبادت کی بنیاد پر فساد کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ ان عناصر میں سے بعض گروہوں نے غیر ملکی امداد کے سہارے پاکستان کو میدان کارزار بنا دیا۔ اب بھی مسلکی اختلاف کی بنیاد پر قتل و غارتگری کو جائز قرار دینے کا طریقہ عام ہے اور مساجد و مدارس کے علاوہ اجتماعات اور بیانات میں اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے فرقہ واریت ختم کرنے اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کی جاتی رہی ہے۔ لیکن کوئی بھی حکومت اس حوالے سے مؤثر اور واضح قوانین بنانے اور ان پر عمل درآمد کروانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ 2014 میں اکیسوں آئینی ترمیم کے تحت منظور ہونے والے قومی ایکشن پلان کا بھی یہی مقصد تھا لیکن حکومت با ربار وعدے کرنے کے باوجود اس پر پوری طرح عمل کروانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ دہشت گردی کے خلاف پہلے آپریشن ضرب عضب، آپریشن خیبر ایک اور دو شروع کئے گئے ۔اب آپریشن رد الفساد کے ذریعے ان کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن ملک میں نفرت پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی کے لئے اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے بلکہ سیاسی اور حکومتی سطح پر ایسے عناصر کی سرپرستی کے مظاہر دیکھنے میں آتے رہے ہیں۔ اس بات میں کلام نہیں ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف بقائے باہمی، سب کے مساوی حقوق اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کے رویہ کے حوالے سے جو باتیں کر رہے ہیں، ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن اس معاشرہ میں افتراق اور انتشار کی اس قدر زیادہ صورتیں دیکھنے میں آتی ہیں کہ اب حکومت کو واضح عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کی ایک شکل سندھ اور ملک کے دیگر علاقوں میں اقلیتی عقائد سے تعلق رکھنے والی بچیوں کو ذبردستی مسلمان کرنے کے حوالے سے سامنے آتی ہے۔ وزیر اعظم نے دو ٹوک الفاظ میں ذبردستی مذہب تبدیل کروانے کے رجحان کو مسترد کیا ہے۔ سندھ اسمبلی نے گزشتہ دنوں اس بارے میں ایک قانون منظور کیا ہے جس کے تحت زبردستی مذہب تبدیل کروانے کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ سندھ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے گورنر نے ابھی تک اس مسودہ قانون پر دستخط نہیں کئے ہیں۔ کتنا ہی اچھا ہو کہ وزیر اعظم کراچی میں اپنے دو روزہ قیام کے دوران گورنر سے اس مسودہ پر دستخط کروانے کا نیک کام انجام دے سکیں۔ اس طرح یہ کہا جا سکے گا کہ نواز شریف مذہبی مفاہمت اور قبولیت کے بارے میں دل کی باتیں کرتے ہیں اور عملی طور پر اس کا مظاہرہ کرنے کے لئے بھی تیار ہیں۔ ملک میں توہین مذہب کا پرچار کرنے والے فیس بک صفحات پر پابندی کے بارے میں احکامات پر عمل کرنے کے ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ توہین مذہب کے موجودہ قوانین میں سے وہ تمام حصے نکال دیئے جائیں جو اسلام کی تعلیمات اور نبی پاک ﷺ کے اسوہ حسنہ سے متصادم ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر ادارے اس بات کے دستاویزی ثبوت فراہم کرتے رہے ہیں کہ ان قوانین کا سہارا لے کر اقلیتی عقائد سے منسلک لوگوں کے خلاف اقدامات کئے جاتے ہیں اور انہیں کسی قصور کے بغیر سال ہا سال تک جیل میں بسر کرنے پڑتے ہیں۔ اس حوالے سے ایمنسٹی کی یہ تجویزمناسب اور قابل عمل ہے کہ توہین مذہب کے مقدمہ میں ملوث کسی فرد کو ضمانت حاصل کرنے کا حق دیا جائے تاکہ وہ مناسب طریقے سے اپنا دفاع کرسکے۔ اس کے علاوہ توہین مذہب کے قانون میں اصلاح کی بات کرنے کے خلاف نفرت کا جو ماحول پیدا کیا گیا ہے ، اسے بھی فوری طور سے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک کی مذہبی اقلیتیں خوف اور سراسیمگی کے ماحول میں زندگی بسر کرتی ہیں۔ وزیر اعظم کے ارفع خیالات کے باوجود ان کے تحفظ کے لئے عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آتے۔ بیشتر اوقات مذہبی جماعتوں کے ناجائز دباؤ اور پروپیگنڈا کی وجہ سے حکومتیں مناسب اقدام کرنے سے گریز کرتی ہیں یا کوئی فیصلہ کرنے کے بعد واپس لے لیتی ہیں۔ کیوں کہ بعض مذہبی گروہ اور لیڈر یہ باور کرنے لگے ہیں کہ ان کا کہا ہی مذہب اور سماجی روایت کے بارے میں حرف آخر ہے۔ وزیر اعظم کی تقریر اگر اس حوالے سے رویوں کی تبدیلی کا نقطہ آغاز ثابت ہو سکے تو یہ ملک کے مستقبل کے لئے ایک خوشگوار پیغام ہوگا۔
(بشکریہ:کاروان)
فیس بک کمینٹ