مردان کی عبد الولی خان یونیورسٹی کے نوجوان طالب علم مشال خان کے قاتلوں کو مختلف نوعیت کی سزائیں دی گئی ہیں۔ ہری پور کی انسداد دہشت گردی عدالت میں اس بہیمانہ قتل کے 57 ملزموں کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تھا جبکہ اس جرم کا اصل ذمہ دار تاحال مفرور ہے۔ عدالت نے ایک شخص کو پھانسی، پانچ کو عمر قید اور 25 کو مختلف مدت قید کی سزائیں سنائی ہیں۔ سزا پانے والوں اور مقتول کے ورثا کے وکیلوں نے اس فیصلہ کے خلاف اپیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس لئے پاکستان کی تاریخ کے اس دردناک قتل کے مقدمہ کا حتمی فیصلہ ہونے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔ مشال خان کے والد اور دیگر اہل خانہ نے مقدمہ میں 26 افراد کو بے گناہ قرار دے کر بری کرنے کے فیصلہ پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ مشال کے والد اقبال لالہ کا کہنا ہے کہ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ جب ان سب کے خلاف ویڈیو کے علاوہ دیگر ثبوت موجود تھے تو انہیں کیسے رہا کردیا گیا۔
تاہم اس مقدمہ قتل کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد اہم ترین سوال یہ ہے کہ ملک کی حکومت، دانشوروں ، علما اور مختلف نوعیت کی تنظیموں نے اس مدت میں اس مزاج اور سوچ کو ختم کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں جو ایسی صورت حال کو جنم دینے کا سبب بنتے ہیں کہ یونیورسٹی میں تعلیم پانے والے نوجوان اور وہاں کام کرنے والے اہلکار اپنے ہی ایک ساتھی طالب علم کو زد و کوب کرکے ہلاک کرنے میں ملوث ہوتے ہیں۔ سینے پر ہاتھ رکھ کر کوئی بھی پاکستانی شہری یہ کہنے سے قاصر ہے کہ مشال کے قتل اور اس کے خلاف اٹھنے والے احتجاج کے باوجود ملک میں کوئی ایسی تحریک سامنے آسکی ہے جس کے نتیجے میں تشدد کا راستہ روکنے کی امنگ کو عام کیا جاسکا ہو یا مذہب کو بنیاد بنا کر الزام تراشی اور قتل جیسا گھناؤنا اقدام کرنے کے رویہ کی حوصلہ شکنی کا اہتمام کیا گیا ہو۔ اگر گزشتہ چند ماہ کے دوران ملک کے سماجی اور سیاسی منظر نامہ پر رونما ہونے والے واقعات کی روشنی میں مشال خان کے قتل اور اس کے عوامل کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بطور قوم اہل پاکستان اس قتل سے کوئی سبق سیکھنے اور ان اسباب کا تدارک کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے جن کی وجہ سے مشال کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس لئے مشال خان کے قاتلوں کو جو بھی سزا دی گئی ہو، یہ امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ آنے والے وقت میں پھر کوئی ’مشال خان ‘ مذہبی جنونیوں یا مذہب کو ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کرنے والے مفاد پرستوں کی کسی سازش کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ کیوں کہ ملک میں اب بھی دوسروں کے عقیدہ کے بارے میں فتوے جاری کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور ببانگ دہل یہ کہا جاتا ہے کہ جو دین کی ایک خاص تفہیم و تشریح کو تسلیم کرنے سے گریز کرے گا، اسے زندہ رہنے کا حق نہیں دیا جاسکتا۔
مشال خان قتل کی تحقیقات کی روشنی میں یہ بات طے ہو گئی ہے کہ اسے توہین مذہب کا جھوٹا الزام عائد کرکے ایک مشتعل ہجوم نے قتل کیا تھا۔ اب یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ مشال خان پر مذہب سے برگشتہ ہونے کا جھوٹا الزام لگانے والے وہ لوگ تھے جو عبدالولی خان یونیورسٹی میں مالی خرد برد اور انتظامی بد اعمالیوں کے مرتکب ہورہے تھے۔ مشال خان طالب علموں کے مفادات کا حوصلہ مند نمائیندہ تھا اور ان خرابیوں کا علی الاعلان پول کھولتا تھا۔ اس کی نکتہ چینی سے بہت سے پردہ داروں کے جرائم سامنے آرہے تھے۔ اس لئے مشال کو خاموش کروانے کے لئے اس کے خلاف توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا اور طالب علموں کو مشتعل کرکے اس پر حملہ کرنے اور اسے ہلاک کرنے پر آمادہ کیا گیا۔ اس لئے صرف یہ کافی نہیں ہو سکتا کہ مشال پر گولی چلانے والے یا اس پر براہ راست تشدد کرنے والے چند افراد کو قصور وار مان کر عدالت یا یہ نظام سکھ کا سانس لے سکتا ہے۔ ان لوگوں کو سزا ملنے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی یہ سوال بہر حال کیا جاتا رہے گا کہ کیا ان خفیہ ہاتھوں کو تلاش کرلیا گیا ہے جو مذہب کو دوسروں کے خلاف نفرت پھیلانے اور نوجوانوں کو تشدد پر اکسانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ کیا ان لوگوں کو سزا دینے کا اہتمام کیا گیا ہے جو اگرچہ 13 اپریل 2017 کو تو وہاں موجود نہیں تھے جب طالب علموں کا ایک گروہ نہتے اور اکیلے مشال خان پر حمہ آور تھا لیکن صورت حال کو اس حد تک پہنچانے کے لئے انہوں نے بند کمروں میں بیٹھ کر نفرت کا کھیل کھیلنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت سے 26 افراد کو بری کیا گیا ہے۔ مشال کے والد یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ویڈیو شواہد ہونے کے باوجود انہیں کیوں کر بے قصور مان لیا گیا۔ عدالت کا مؤقف ہے کہ ان لوگوں کے خلاف کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔ یہ لوگ یا تو خاموش تماشائی تھے یا ویڈیو بنا رہے تھے۔ فیصلہ کا یہ جملہ اس افسوسناک صورت حال کی عکاسی کرتا ہے جو اس وقت پاکستانی معاشرے میں نمایاں طور سے موجود ہے۔ یعنی چند لوگ ایک نہتے اور بے بس نوجون پر تشدد کرتے ہوئے اسے قتل کررہے ہیں لیکن نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد یا تو ویڈیو بنانے میں مصروف ہے یا خاموشی سے ایک انسانی جان کو ضائع ہوتا دیکھ رہی ہے۔ کیا ملک کی کوئی عدالت یہ طے کرسکےگی کہ ایک انسان کو لاحق خطرے کے وقت خاموش تماشائی بنے رہنا بھی جرم میں معاونت کے ہی مترادف ہے۔ لیکن یہ اصول صرف اس وقت طے کیا جاسکتا ہے جب یہ بات تسلیم کی جاسکے کہ دوسروں کے خلاف نفرت پھیلانا اور کسی نظریہ یا عقیدہ کی بنیاد پر کسی کو واجب القتل قرار دینا جائز اور درست نہیں ہے۔ فی الوقت اس معاشرہ کا کوئی ادارہ اس نفرت کے خلاف کوئی کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہے جو راسخ العقیدہ ہونے کی تعریف کے حوالے سے معاشرے میں پھیلائی جارہی ہے۔ جس کا جو بھی عقیدہ ہو۔ لیکن اگر یہ عقیدہ کسی کو بھی کسی دوسرے انسان کو قتل کرنے پر آمادہ کرتا ہے تو اس کا تدارک کرنا ریاست کے تمام اداروں کی بنیادی ذمہ داری ہونی چاہئے۔
مذہب اور عقیدہ کے نام پر نفرت کے خلاف اگر ملک کی حکومت ، مذہبی رہنما اور اہل دانش اتنا واضح مؤقف اختیار کرسکتے تو سب سے پہلے ان افراد کو تلاش کرکے کٹہرے میں لانے کی ضرورت تھی جنہوں نے مشال کے قتل کے چند روز بعد مردان میں جلوس نکالا اور قاتلوں کو گرفتار کرنے پر احتجاج کیا۔ اس موقع پر یہ اعلان کرکے بازار بند کروائے گئے کہ حرمت رسول ﷺ کی حفاظت کرنے والوں کی حمایت میں احتجاج کیا جارہا ہے۔ گویا مشال کے قتل کی دردناک تفصیلات سامنے آنے کے باوجود اس شہر کے ممتازمذہبی اور سیاسی رہنما قاتلوں کو ’حرمت رسول‘ کا پاسبان اور مشال کو توہین مذہب کا مرتکب قرار دینے کی کوشش کررہے تھے۔ وہ یہ بات تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے کہ مشال پر حملہ کرنے والے، انہیں اس کام کے لئے اکسانے والے اور اس ظلم کا تماشہ دیکھنے والے ملک کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے رہے تھے ۔
مشال کی کوئی غلطی تھی یا نہیں لیکن ایک نہتے شخص پر کسی بھی وجہ سے حملہ کرنا اور اسے تشدد کرکے ہلاک کرنا کسی بھی اصول اور قانون کے تحت جائز نہیں ہو سکتا۔ جب تک ملک میں یہ اصول طے نہیں ہو گا، جب تک اسے تسلیم کرتے ہوئے ہر قتل کے بعد یہ ثبوت دینے کی کوشش کرنا ضروری ہوگا کہ مقتول تو صاحب العقیدہ مسلمان تھا لیکن حملہ کرنے والوں نے اسے قتل کرکے غلط کام کیا۔ اس وقت تک بالواسطہ ہی سہی یہ اصول نوشتہ دیوار بنا رہے گا کہ اگر مرنے والے کا عقیدہ ’درست‘ نہیں تھا یا مارنے والا ممتاز قادری کی طرح ’ حب رسول ﷺ‘ کے جوش میں حملہ کررہا تھا تو اسے غلطی نہیں مانا جاسکتا۔ یہ مزاج اور طرز عمل اس وقت ملک میں امن و مان کی صورت حال اور قانون کی بالادستی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اس کا جواب تلاش کئے بغیر پاکستانی قوم کا آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔ اسی لئے مشال قتل کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ نامکمل ہے۔ اسی لئے ابھی اس ملک کی درسگاہوں میں جانے والے لاکھوں مشال محفوظ نہیں ہیں۔ اسی لئے مشال خان کی روح آسودہ نہیں ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ